تھانہ سول لائنز کے ایس ایچ او شاہد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے تین دن کے اندر ہی ٹیکنالوجی کی مدد سے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ ایک ملزم بھاگتے ہوئے نرس کا موبائل اپنے ساتھ لے گیا تھا جس پر لوکیشن آن تھی۔
’مجھے بچا لو مجھے بچا لو۔ یہ مجھے اغوا کر رہے ہیں۔‘
26 اکتوبر 2024 کو رات نو بجے کے بعد کا وقت تھا جب مسلسل بجتا فون اٹھانے والی خاتون کے لیے دوسری جانب سے آتی ہڑبڑائی اور پریشان آواز ہرگز انجانی نہ تھی۔
ان کے بقول ’پہلے تو میں خود گھبرا گئی خیر میں نے حوصلہ کیا اور کہا تم کہاں ہو؟ اس نے جواب دیا مجھے نہیں پتہ بس مجھے بچا لو۔ میں نے اسے کہا حوصلہ کرو ڈرو نہیں۔ میں تمھیں بچا لوں گی۔‘
’میں نے پوچھا تم کہاں ہو؟ اس نے جواب دیا باجی مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔ میں نے اسے کہا تم ایسا کرو مجھے لائیو لوکیشن بھیجو۔ میں آتی ہوں۔‘
یہ سب جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ میں ہو رہا تھا۔ فون سننے والی ڈاکٹر طیبہ تھیں اور جس خاتون کو اغوا کیا جا رہا تھا وہ ان کی جاننے والی ایک نرس تھیں جن کی شناخت اس تحریر میں ظاہر نہیں کی جا رہی۔
جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں نرس سے ریپ کی کوشش کرنے والے ایک ملزم کو تین دن بعد یعنی 29 اکتوبر 2024 کو گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم دوسرے ملزم کی تلاش ابھی جاری ہے۔
تھانہ سول لائنز کے ایس ایچ او شاہد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے تین دن کے اندر ہی ٹیکنالوجی کی مدد سے ملزم کو گرفتار کر لیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ملزم کو لوکیشن کی مدد سے گرفتار کر لیا جو بھاگتے ہوئے نرس کا موبائل اپنے ساتھ لے گیا تھا اور جب اس کو گرفتار کیا گیا تو وہ موبائل بھی اس کی جیب سے برآمد ہوا۔
26 اکتوبر کی رات ہوا کیا تھا؟
نرس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے رات کو پونے نو بجے اپنی ڈیوٹی ختم کر کے گھر جانے کے لیے رکشہ لیا۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس رکشے میں پہلے سے ہی ایک نامعلوم شخص سوار تھا۔
نرس نے بی بی سی کو بتایا کہ رکشے والے نے جب راستہ تبدیل کیا تو انھیں خطرہ محسوس ہوا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو تو ڈرائیور نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں اس سواری کو اتار کر میں آپ کوچھوڑ دوں گا۔ تھوڑی دیر کے لیے میں مطمئن ہو گئی۔ رکشہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ تو مجھے عجیب محسوس ہونا شروع ہوا میری چھٹی حِسّ نے مجھے خطرے سے آگاہ کرنا شروع کر دیا۔‘
نرس بتاتی ہیں کہ ’جب وہ کچھ زیادہ آگے نکل گیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ رکشہ ڈرائیور اور رکشہ سوار دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے پہلے اپنے بھائی کو کال کی تو انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔ میں پریشان ہو گئی۔ میرے ہاتھ کانپنے لگے۔ دل اور دماغ میں وسوسے آنے لگے۔ پھر سوچا کہ مجھے ہمت کرنا ہو گی۔ میں خود کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔‘
پھر انھوں نے ڈاکڑ طیبہ امجد کو کال کر دی تاکہ وہ انھیں بچا سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ڈاکٹر طیبہ نے مجھے کہا کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ آپ کی طرف نکلتی ہوں آپ لائیو لوکیشن بھیج دیں۔‘
ڈاکٹر طیبہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھیں کال آئی تو وہ پریشان ہو گئیں۔ پھر ایک دم خیال آنے پر انھوں نے نرس کو لایئو لوکیشن بھیجنے کے لیے کہہ دیا۔
ڈاکٹر طیبہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے ٹائم ضائع کیے بغیر اپنے شوہر کو گاڑی میں بٹھایا اور نکل پڑی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ راستے میں چوک پر ہی انھیں ایک پولیس والا نظر آ گیا۔ ’میں نے ان سے کہا کی بھائی ہماری گاڑی میں بیٹھ جاؤ ایک عورت کی جان اور عزت خطرے میں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وہ قانونی طور پر نہیں جا سکتے کیونکہ وہ چھٹی کر کے گھر جا رہے تھے۔ جس پر میں نے کہا کہ بھائی اس وقت ایک عورت کو اغوا اور ریپ سے بچانا ہے جس کے بعد وہ ہماری گاڑی میں بیٹھ گئے۔‘
نرس یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’اتنی دیر میں وہ مجھے ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں گنے کے کھیت اور مچھلی کے فارم تھے۔ میں نے مزاحمت کی جس پر انھوں نے مجھ پر تشدد کیا اور میرے منھ پر تھپڑ مارے۔ میرا موبائل بھی چھین لیا۔‘
وہ بتاتی ہیں ’وہ میرا ریپ کرنے کی کوشش کرتے رہے اور میں اپنے آپ کو ان کے چنگل سے چُھڑانے کی کوشش کرتی رہی۔ میں نے مزاحمت نہیں چھوڑی۔‘
اسی دوران لوکیشن کی مدد سے ڈاکٹر طیبہ اپنے وکیل شوہر اور پنجاب کانسٹیبلری کے سپاہی محمد بلال کے ساتھ وہاں پہنچ گئیں۔
ڈاکٹر طیبہ بتاتی ہیں ’ہم نے انھیں دور سے دیکھا اور کہا کہ نرس کو چھوڑ دو۔ وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔‘
’ہمارے ساتھ جو پولیس والا آیا تھا اس نے چار فائر کیے اور ساتھ ہی مزید پولیس کو بھی بلا لیا۔ تب ملزمان نے نرس کو چھوڑا اور بھاگ گئے۔‘
ان کے ساتھ جانے والے سپاہی محمد بلال نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے فائر کرنے پر ملزمان بھاگے اور خاتون کی جان بچ گئی۔
وہ کہتے ہیں ’میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ میرا کام ہی لوگوں کی جان و مال اور عزت کی حفاظت ہے۔ جیسے ہی میں ڈاکٹر صاحبہ کی گاڑی میں سوار ہوا تو میں نے پولیس ہیلپ لائن پر کال کر کے مزید نفری بھی بلا لی تھی۔‘
ڈاکٹر طیبہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’جب میں کار میں بیٹھی تو ایک لمحے کو یہ بھی سوچا کہ ان جنسی درندوں کے پاس یقینا اسلحہ ہو گا۔ وہ مجھے اور میرے شوہر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ دوسرے لمحے خیال آیا کہ نہیں اس عورت کی جان اور عزت بچانی ضروری ہے۔ اس کے بعد میں نے اور کچھ نہیں سوچا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ یہ سب وہ اپنے شوہر اور اس پولیس والے کی مدد کے بغیر شاید نہ کر پاتیں۔
خواتین مشکل میں ٹیکنالوجی کی مدد کیسے لے سکتی ہیں؟
ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن کی انچارج اقصیٰ فیاض نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اپنے تحفظ کے لیے اپنے موبائل میں ’ویمن سیفٹی ایپ‘ ڈاؤن لوڈ کر سکتی ہیں۔
خطرے کی صورت میں ایک کلک پر ان کی مدد کے لیے پولیس پہنچ جائے گی۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’پنجاب میں چھ لاکھ سے زائد خواتین نے اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کیا اور سینکڑوں خواتین اس ایپ کی مدد سے شکایت کر کے استفادہ حاصل کر چکی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جو خواتین پولیس سٹیشن نہیں آ سکتیں وہ سیف سٹی کی ویب سائٹ پر اپنی شکایات درج کروا سکتی ہیں ’جس پر فوراً ایکشن ہوتا ہے۔‘
اقصیٰ فیاض کا مزید کہنا ہے کہ ایک کرائم سٹاپر نمبر بھی ہم نے دیا ہوا ہے۔ کوئی بھی شخص اگر کوئی جرم ہوتا دیکھے تو اس نمبر پر کال کر سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اطلاع دینے والے شخص کا نمبر صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے بلکہ کال کرنے والے کا نام ہمیں بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ تاہم پولیس جرم کرنے والے تک پہنچ جاتی ہے۔‘