آسٹریلیا کے خلاف پاکستانی بالرز کا شاندار کم بیک، ایڈیلیڈ میں ہونے والے تیسرے میچ میں بھی کوئی آسٹریلوی کھلاڑی جم کر نہ کھیل سکا۔ پاکستانی ٹیم کی اس پرفارمنس کے بعد شائقینِ کرکٹ انتہائی خوش۔
پاکستان نے آسٹریلیا کو پرتھ میں ہونے والے ایک روزہ میچوں کی سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ میں آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر سیریز دو ایک سے جیت لی ہے۔
ایڈیلیڈ میں ہونے والے گزشتہ میچ کی طرح اس میچ میں بھی بابر اعظم نے اپنی روایت کو برقرار رکھا اور وننگ شاٹ لگائی۔
پاکستانی اوپنرز کی شراکت کے بعد کپتان محمد رضوان اور بابر اعظم نے انتہائی ذمہ داری سے بیٹنگ کی اور 141 رنز کا ہدف حاصل کر لیا۔
پاکستان کی جانب سے آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی اوپنر عبداللہ شفیق تھے جنھوں نے 53 گیندوں کا سامنا کیا اور 37 رنز بنائے۔ ان کے بعد صائم ایوب 42 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
واضح رہے کہ پاکستان کو آسٹریلیا نے تیسرے اور آخری ایک روزہ میچ میں جیتنے کے لیے 141 رنز کا ہدف دیا تھا۔
پرتھ میں کھیلے جانے والے ون ڈے سیریز کے آخری میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا اور آسٹریلیا کو بیٹنگ کی دعوت دی۔
اتوار کے روز پرتھ میں ایک مرتبہ پھر پاکستانی کپتان محمد رضوان نے ایڈیلیڈ کی طرح ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کرنے کا فیصلہ کیا جسے پاکستانی فاسٹ بولرز نے درست ثابت کیا۔
پرتھ میں ہونے والے اس میچ میں پاکستانی فاسٹ بالرز نے آسٹریلیا کی بیٹنگ لائن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ پاکستان کی جانب سے ہونے والی نپی تُلی بالنگ کی وجہ سے 31.5 اوورز میں آسٹریلیا کے نو کھلاڑی 140 رنز پر آؤٹ ہو گئے جب کہ ایک کھلاڑی انجری کی وجہ سے دوبارہ بیٹنگ کے لیے میدان میں نہیں اتر پائے۔
آسٹریلیا کے اوپننگ بلے باز اس میچ میں بھی اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے، جیک فریزر میکگورک صرف سات رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے جبکہ میتھیو شارٹ نے 22 رنز کی اننگز کھیلی اور آسٹریلیا کو اچھا آغاز دینے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
کپتان جوش انگلس بھی محض سات ہی رنز بنا سکے اور ایرون ہارڈی نے 12 رنز بنائے۔
کوپر کونولی سات رنز پر چوٹ لگ جانے کی وجہ سے زخمی ہو کر میدان سے باہر چلے گئے، محمد حسنین کی گیند ان کے ہاتھ پر لگی اور زخمی ہونے کے بعد وہ دوبارہ بیٹنگ کرنے کے لیے گراؤنڈ میں واپس نہیں آسکے۔
گلین میکسوئل مسلسل تیسرے میچ میں حارث رؤف کا شکار بنے، وہ بنا کوئی رنز بنائے ہی پویلین واپس لوٹ گئے۔
پاکستان کی جانب سے شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ نے تین، تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جبکہ حارث رؤف نے دو اور محمد حسنین نے ایک وکٹ حاصل کی۔
واضح رہے کہ پاکستانی ٹیم کی جانب سے دونوں میچوں میں کوئی بھی تبدیلی نہیں کی گئی تھی۔
تاہم آسٹریلیا نے اس میچ کے لیے پانچ تبدیلیاں کیں جن میں کوپر کونولی، مارکس سٹوئنس، شان ایبٹ، سپینسر جونسن اور لینس موریس کو موقع دیا گیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے شاندار پرفارمنس کے بعد یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ سوشل میڈیا پر اس کا چرچا نہ ہوتا۔
آسٹریلیا میں 2002 کے بعد سیریز میں پہلی کامیابی پر پاکستانی شائقین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کپتان محمد رضوان کی قیادت کو خوب سراہا۔
ایک صارف نے لکھا: ’محمد رضوان کی کامیابی کا بہترین آغاز۔ وہ پوری سیریز میں اپنی کپتانی کے ساتھ نمایاں رہے۔ تعریف کے سوا کچھ نہیں۔‘
سوشل میڈیا پر آسٹریلیا کے خلاف کامیابی پر خوشی سے نہال ایک صارف نے لکھا کہ ’رضوان کی کپتانی کے دور میں خوش آمدید۔‘
کرکٹ تجزیہ کار مظہر ارشد نے ایکس پر محمد رضوان کی بطور کپتان کارکردگی کو خوب سراہا۔
انھوں نے لکھا کہ ’رضوان کی کپتانی کا ایک اور پہلو جو تعریف کا مستحق ہے کہ تینوں میچوں میں انھوں نے یہ محسوس کر لیا کہ 50 اوورز سے پہلے 10 وکٹیں حاصل کی جا سکتی ہیں، لہذا انھوں نے سپنرز کو زیادہ استعمال نہیں کیا اور کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے فاسٹ بالرز کو موقع دیا۔‘
ایک اور صارف نے پاکستانی فاسٹ بالنگ سے متعلق کہا کہ ’ایک طویل عرصے کے بعد ہم نے آسٹریلیا میں پاکستانی فاسٹ بولر کی جانب سے اس سیریز میں انتہائی متاثر کن کارکردگی دیکھی ہے۔ حارث رؤف کا نام نمائیاں رہا اور اب وہ اس ملک میں کافی مقبول شخصیت بن چکے۔‘
تاہم مظہر کی طرح ایک اور صارف نے کپتان محمد رضوان کی تعریف کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کے ’رضوان اس پوری سیریز میں صرف چار بالرز کے ساتھ کامیاب رہے اور شاندار کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے۔‘
ایک صارف نے تو ایکس پر پاکستانی فاسٹ بالنگ کے بارے میں یہاں تک کہ دیا کہ ’کیا پاکستان میں فاسٹ بالرز کی فیکٹریاں ہیں جہاں سے لگاتار ورلڈ کلاس فاسٹ بالرز سامنے آرہے ہی؟‘
ایک اور صارف نے پاکستانی بالنگ لائن اپ کی تعریف کی اور لکھا کہ ’میں نے اپنے فاسٹ بالرز کو اتنا خطرناک ایک عرصہ کے بعد دیکھا، ہمارے لڑکے بڑے ہو رہے ہیں۔‘
جہاں ایک جانب سب نے رضوان اور اُن کی اس میچ میں بھی حکمتِ عملی پر سوشل میڈیا پر بات ہو رہی ہے وہیں کُچھ صارفین نے اس لمحے کا بھی ذکر کرتے نظر آئے جب ایک تھرو کو پکڑتے ہوئے شاہین شاہ آفریدی کے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر بال لگی تو فزیو سے پہلے بابر شاہین ان تک پہنچے اور اُن کے اُنگوٹھے کی مالش کرتے نظر آئے۔
ایک صارف نے تو یہ سب دیکھ کر ایکس پر بس اتنا ہی لکھا کہ ’رضوان کی کپتانی میں بابر اور شاہین کو دیکھیں۔‘
ایک اور صارف نہ ایکس پر لکھا کہ ’جب شاہین کے انگوٹھے پر بال لگی تو بابر فزیو کے پہنچنے سے پہلے شاہین کے پاس تھے۔‘
آج کے میچ میں پاکستانی فاسٹ بالرز کی پرفارمنس تو ایک جانب مگر اسی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے نئے کپتان محمد رضوان سے متعلق بھی خوب بات ہو رہی ہے اور اُن کی آسٹریلیا کے خلاف حکمتِ عملی کو پسند کیا جا رہا ہے۔
ایک صارف نے لکھا ’اس بات کا اظہار ایک لمبے عرصہ سے کیا جا رہا تھا کہ محمد رضوان ایک اچھے کپتان ثابت ہو سکتے ہیں، انھیں اس بات کا بہتر اندازہ ہے کہ فاسٹ بالرز کو کب اور کیسے استعمال کرنا ہے، ایک طویل انتظار کے بعد اب پاکستانی کرکٹ ایک درست راستے پر ہے۔‘
ایک اور صارف نے ایکس پر رضوان کی کپتانی سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کُچھ اس طرح سے کیا ’کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ آسٹریلیا کے کسی بھی بلے باز نے پاکستان کے خلاف اس سیریز میں کوئی ایک بھی نصف سینچری سکور نہیں کی ہے۔ ہم رضوان کے دور میں جی رہے ہیں۔‘