رضوان کا کمال یہ رہا کہ انھوں نے یہ سب آسٹریلیا کے ہوم گراؤنڈز میں کر دکھایا۔
’آسٹریلیا میں کوئی بھی میچ جیتنا بہت یادگار ہوتا ہے۔ ہم جو جو میچ یہاں جیتے، سبھی مجھے یاد ہیں۔ مگر ان لڑکوں نے ہم سے بھی بہتر کرکٹ کھیلی اور آسٹریلیا کو زبردست ’سٹائل‘ سے ہرایا۔۔۔‘ یہ الفاظ تھے کمنٹری بوکس میں بیٹھے سابق کپتان وسیم اکرم کے، جب پاکستان اس تاریخی فتح کے قریب پہنچ رہا تھا۔
صائم ایوب کی عمر ایک ماہ سے بھی کم تھی جب پچھلی بار 2002 میں پاکستان نے آسٹریلیا میں کوئی سیریز جیتی تھی۔ اس جیت کو اپنی دہائی کے مستند ناموں وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، ثقلین مشتاق، سعید انور، شاہد آفریدی اور انضمام الحق جیسے ناموں کی تقویت حاصل تھی۔
اس فتح کے بعد اگلی دو دہائیاں بھی پاکستان کے سبھی آسٹریلوی دورے ویسے ہی بے ثمر رہے جیسے اس سے پہلے کئی ہوا کرتے تھے۔ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ابتری بڑھتی گئی۔
محمد رضوان کو پاکستان کی قیادت ملنا ایک بڑا اعزاز تھا مگر اس سے کہیں زیادہ یہ ایک چیلنج تھا جہاں ان کے اس نئے کیریئر کی پہلی سیریز ہی اس مشکل ترین سرزمین پہ تھی جہاں جیت کے خواب تو بہت دور، فقط آبرو مندی ہی بڑی بات ہوتی ہے۔
دیگر کھیلوں کے برعکس کرکٹ کپتان کی گیم ہوتی ہے۔ جس قدر فیصلہ سازی آن فیلڈ کپتان کے ہاتھ میں ہوتی ہے، میچ کی نبض پہ حتمی ہاتھ اسی کا ہوتا ہے کہ کبھی اس کی ایک فیلڈنگ چینج، ایک بولنگ چینج سے سارے کھیل کا دھارا بدل سکتا ہے۔
سو، جب اختیار اس قدر ہو اور فیصلہ سازی کی محویت یوں طاری ہونے لگے تو کپتان کے لیے پہلا اہم مرحلہ اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنا ہوتا ہےاور پھر اس سکون کو اپنے ڈریسنگ روم پہ بھی منعکس کرنا ہوتا ہے۔
نامانوس کنڈیشنز میں، جب حریف آسٹریلیا جیسا مشکل ہو تو فیلڈنگ کپتان کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے کہ مضبوط ٹیموں کے بلے باز محض ایک دو ساجھے داریوں سے ہی میچ کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔
کسی بھی کپتان کی تزویراتی صلاحیتوں کا امتحان شروع ہی تب ہوتا ہے جب کوئی مضبوط ساجھے داری اس کے ہاتھ سے میچ لے اڑنے کا خطرہ پیدا کر دے۔
رضوان کی قیادت میں خوبی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اعصاب قابو میں رکھتے ہیں بلکہ کھیل کے ہر لمحے میں ایسے دھیان سے مرتکز رہتے ہیں کہ ہر گیند پہ انھیں ایک نیا جال بننے کی سہولت ملتی ہے۔ لگی بندھی کپتانی کی بجائے، وہ ہمہ وقت دس وکٹوں کی تلاش میں جُتے رہتے ہیں اور اپنے بولنگ وسائل کا بروقت استعمال کرتے ہیں۔
آسٹریلوی بلے بازوں کی ساجھے داریاں توڑنے میں رضوان نے اپنے بولرز اور فیلڈرز کا بہترین استعمال کیا، بھلے وہ نسیم شاہ کے پہلے سپیل میں اینڈ تبدیل کر کے ایک اضافی اوور کرانے کا فیصلہ ہو، بھلے حارث رؤف کے مطالبے پہ کور پوائنٹ کو ڈیپ سے اندر لا کر اگلی ہی گیند پہ وکٹ حاصل کرنا ہو۔
ون ڈے کرکٹ کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تین میچز کی سیریز میں اوپری سات آسٹریلوی بلے بازوں کی بیٹنگ اوسط محض 16 رنز رہی اور تینوں میچز کے اطراف کوئی ایک بھی بلے باز ففٹی بنانے میں ناکام رہا۔ رضوان کا کمال یہ رہا کہ انھوں نے یہ سب آسٹریلیا کے ہوم گراؤنڈز میں کر دکھایا۔
آسٹریلوی نقطۂ نظر سے ان اعداد و شمار کا کچھ ملبہ ٹاپ آرڈر میں ٹریوس ہیڈ اور مچل مارش کی عدم دستیابی پہ بھی ڈالا جا سکتا ہے مگر پاکستانی زاویۂ نگاہ سے یہ پھر بھی زبردست ہیں کہ جس بیٹنگ لائن کے خلاف پاکستانی پیسرز نے یہ اعزاز حاصل کیا، اسے سٹیو سمتھ، مارنس لبوشین، جاش انگلس اور گلین میکسویل جیسے آزمودہ کار نام میسر تھے۔
آسٹریلوی دوروں پہ پاکستانی بولنگ کا دیرینہ مسئلہ ڈسپلن رہا ہے جہاں اچھے اچھے بولر عموماً باؤنسرز کے جوش میں شارٹ پچ کے اردگرد بھٹکتے رہتےاور آسٹریلوی بلے بازوں کا خون بڑھاتے رہتے۔ مگر رضوان کی قیادت میں نہ صرف یہ ڈسپلن شاندار رہا ہے بلکہ بولرز کی جارحیت کو وہ اعتماد بھی ملا ہے کہ سیریز کی فیصلہ کن اننگز میں 22 رنز ایکسٹرا دینے کے باوجود کسی بولر کو اپنے کپتان سے کوئی جھڑکی نہیں پڑی۔
گو پاکستان کی خوش بختی یہ بھی رہی کہ آسٹریلیا کو اس فیصلہ کن میچ کے لیے اپنے پانچ بہترین کھلاڑی دستیاب نہ تھے۔
مگر جو مومینٹم یہ پاکستانی بولنگ اٹیک میلبرن سے لے کے چلا تھا، پرتھ میں اگر اولین آسٹریلوی لائن اپ بھی سامنے ہوتی تو بھی جیت رضوان کے دھیان کی ہی ہوتی۔