باقی دنیا کے لیے تو یہ ایک کسی بھی دوسرے سیکس ٹیپ سکینڈل کی طرح ہے لیکن یہ افریقی ملک اکواٹوریل گنی کے اگلے صدر کی دوڑ میں اب تک ہونے والے ڈرامائی واقعات کی تازہ ترین قسط بھی ہو سکتی ہے۔
باقی دنیا کے لیے تو یہ ایک کسی بھی دوسرے سیکس ٹیپ سکینڈل کی طرح ہے لیکن یہ افریقی ملک ایکواٹوریل گنی کے اگلے صدر کی دوڑ میں اب تک ہونے والے ڈرامائی واقعات کی تازہ ترین قسط بھی ہو سکتی ہے۔
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ایک سینیئر سرکاری ملازم کی درجنوں ویڈیوز، کچھ اندازوں کے مطابق 150 سے 400 ویڈیوز لیک کی گئی ہیں جن میں انھیں اپنے دفتر اور دیگر جگہوں پر خواتین کے ساتھ سیکس کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر ان ویڈیوز کی بھرمار ہے جنھوں نے وسطی افریقہ کے اس چھوٹے سے ملک کے ساتھ ساتھپورے براعظم افریقہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ان ویڈیوز میں نظر آنے والی اکثر خواتین ملک میں طاقت کے مرکز کے قریبی لوگوں کی بیویاں اور رشتہ دار ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے کچھ کو یہ معلوم تھا کہ ان کی بلتسار ایبانگ اینگونگا کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے ویڈیو بن رہی ہے۔بلتسار ایبانگ اینگونگا کو ان کی خوبصورتی کی وجہ ’بیلو‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس سب کی تصدیق کرنا اس لیے مشکل ہے کیونکہ اکواٹوریئل گنی میں سینسرشپ نافز ہے اور میڈیا بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔
تاہم اس بارے میں ایک مفروضہ یہ بھی گردش کر رہا ہے کہ یہ سب اس طوفان کے مرکز میں موجود شخص کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا۔
بلتسار ایبانگ اینگونگا دراصل ملک کے موجودہ صدر تیوڈورو اوبیانگ نگویما کے بھتیجے ہیں اور ان کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا کہ وہ ان کی جگہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔
اوبیانگ دنیا کے سب سے طویل مدت تک صدر رہنے والے شخص ہیں اور وہ سنہ 1979 سے اقتدار میں ہیں۔
82 سالہ اوبیانگ نے ملک کی معیشت میں بہتری آتی بھی دیکھی اور اب تیل کے ذخائر میں کمی کے باعث اس میں تنزلی بھی دیکھ رہے ہیں۔
17 لاکھ کی آبادی والے ملک کی آبادی کا زیادہ تر حصہ غربت میں زندگی گزار رہا ہے۔ اوبیانگ کی انتظامیہ کو اس کے انسانی حقوق کے ناقص ریکارڈ کے باعث شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
امریکی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کی حکومت پر لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے اور ان پر تشدد کرنے کے بھی الزامات موجود ہیں۔
ان کے حوالے سے متعدد سکینڈلز بھی گردش کرتے رہے ہیں جن میں ان کے بیٹے کے پرتعیش لائف سٹائل کے حوالے سے انکشافات بھی شامل ہیں جو آج کل نائب صدر ہیں اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ مائیکل جیکسن کا دو لاکھ 75 ہزار ڈالر کا دستانہ پہنتے تھے جس پر ہیرے جڑے ہوئے تھے۔
ملک میں تسلسل کے ساتھ انتخابات تو ہوتے ہیں لیکن حزبِ اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ سماجی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور جلا وطن کیا جاتا رہا ہے جبکہ جن کی نظر اقتدار پر ہے ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔
اس ملک میں سیاست کا محور محلاتی سازشوں سے جڑا عوامی تجسس ہے اور یہی وجہ ہے کہ اینگونگا سے منسلک سکینڈل کے حوالے سے اتنی دلچسپی پائی جاتی ہے۔
اینگونگا نیشنل فنانشل انویسٹیگیشن ایجنسی کے سربراہ تھے اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم کی روک تھام کے لیے کام کرتے تھے۔ تاہم بعد میں معلوم ہوا ہے کہ ان پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔
گذشتہ ماہ 25 اکتوبر کو انھیں سرکاری خزانے سے کیمن جزائر میں اپنے خفیہ اکاؤنٹس میں رقم منتقل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے ان الزامات پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
اینگونگا کو دارالحکومت مالابو کی ایک بدنامِ زمانہ جیل میں لے جایا گیا تھا جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہاں حکومت کے مخالفین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے فون اور کمپیوٹرز ضبط کر لیے گئے تھے اور چند روز بعد ہی ان کی ذاتی ویڈیوز آن لائن اپ لوڈ ہونے لگیں۔
فیس بک پر ان ویڈیوز کا پہلا ذکر، جو بی بی سی کو ملا، وہ 28 اکتوبر کو ڈیاریو رومبے نامی پیج پر تھا جسے ایک جلاوطن صحافی سپین سے چلاتے ہیں۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ’سوشل نیٹ ورکس پر تصاویر اور لیک ہونے والی مبینہ سیکس ویڈیوز اور تصاویر کی اچانک بھرمار ہو گئی۔‘
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں اگلے روز کہا گیا کہ ’سکینڈل نے حکومت کو جھنجھوڑا ہے‘ اور ’پورن ویڈیوز کی سوشل میڈیا پر بھرمار ہو گئی ہے۔‘
تاہم اطلاعات کے مطابق یہ ویڈیوز ایک ایک کر کے ٹیلیگرام پر کچھ روز قبل اپ لوڈ کی گئی تھیں اور یہ پلیٹ فارم کے ایک ایسے چینل پر اپ لوڈ کی گئیں جو اس طرح کے مواد کی اشاعت کے لیے مشہور ہے۔
اس کے بعد یہ لوگوں کے فونز میں ڈاؤن لوڈ ہوئیں اور پھر اکواٹوریل گنی کے مختلف واٹس ایپ گروپس میں شیئر ہونے لگیں۔
اینگونگا کی شناخت ان ویڈیوز میں فوراً کی جا سکتی ہے اور ان کے ساتھ موجود خواتین کو بھی پہچانا جا سکتا ہے جو صدر کی رشتہ دار اور وزرا اور سینیئر فوجی اہلکاروں کی بیویاں ہیں۔
حکومت اس سب کو نظر انداز نہیں کر سکی اور 30 اکتوبر کو نائب صدر تیودورو اوبیانگ نے ٹیلی کام کمپنیوں کو اس پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 24 گھنٹوں کا وقت دیا۔
انھوں نے ایکس پر لکھا کہ ’ہمکوئی کارروائی کیے بغیر خاندانوں کو بکھرتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس دوران ان ویڈیوز کی اشاعت کرنے والوں کے حوالے سے تحقیقات ہو رہی ہیں اور انھیں اپنی حرکتوں پر جواب دہ ہونا پڑے گا۔‘
کیونکہ اینگونگا کے کمپیوٹر اور فون سکیورٹی فورسز کے پاس تھے اس لیے اس حوالے سے شکوک بھی اسی ادارے کی جانب ہیں کہ انھوں نے ٹرائل سے پہلے اینگونگا کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔
پولیس کی جانب سے اینگونگا کے خلاف بغیر اجازت ایسی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے کے الزام میں مقدمہ دائر کرنے کے لیے متاثرہ خواتین سے سامنے آنے کا کہا گیا ہے۔ ان میں سے ایک خاتون نے کہا کہ وہ مقدمہ چلانا چاہیں گی۔
جو بات واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اینگونگا نے خود یہ ریکارڈنگز بنائی ہیں یا کسی اور نے۔ تاہم سماجی کارکنوں نےلیک ہونے والی ان ویڈیوز کے پیچھے موجود دیگر ممکنہ وجوہات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔
اینگونگا صدر کے رشتہ دار تو ہیں لیکن وہ بلتاسر اینگونگا ایڈگو کے بیٹے ہیں جو ریجنل اکنامک اینڈ مانیٹری یونین (سیمیک) کے سربراہ ہیں اور ملک میں بہت بااثر سمجھے جاتے ہیں۔
ایک سماجی کارکن سانگ کسرٹیا ایسیمی کروز کہتے ہیں کہ ’ہم ایک دور کا اختتام ہوتا دیکھ رہے ہیں، موجودہ صدر کا اختتام اور ان کی جانشینی کے حوالے سے سوال موجود ہے اور اس حوالے سے ہم آپس میں ہونے والی لڑائی منظرعام پر دیکھ رہے ہیں۔‘
بی بی سی فوکس آن افریقہ پاڈکاسٹ سے بات کرتے ہوئے وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ نائب صدر کسی بھی ایسے شخص کو سیاسی طور پر راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں جو ’ان کی جانشینی کے حوالے سے چیلنج بنے گا۔‘
نائب صدر اور ان کی والدہ کے حوالے سے یہ شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو راستے سے ہٹا رہے ہیں جو ان کے صدر بننے کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں۔
ان میں گیبریئل اوبیانگ لیما بھی شامل ہیں (جو صدر اوبیانگ کی ایک اور بیوی سے ہونے والی اولاد ہیں)۔ وہ 10 سال تک وزیرِ رہے اور پھر ایک حکومتی عہدے پر تعینات رہے۔
ماضی میں بھی سیاسی حریفوں کو بدنام کرنے کے لیے ایسی ویڈیوز استعمال کی جاتی رہی ہیں۔
اس حوالے سے بھی الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ صدر کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سے بھی سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے۔
تاہم سماجی کارکن کروز کا دعویٰ ہے کہ حکام چاہتے ہیں کہ وہ اس سکینڈل کو سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے استعمال کریں کیونکہ ان ہی پلیٹ فارمز کے ذریعے ملک میں جو بھی رہا ہے اس کی معلومات منظر عام پر آتی ہے۔
جولائی میں حکام نے انٹرنیٹ کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا جب ایک جزیرے پر احتجاج ہوا تھا۔
خیال رہے کہ نائب صدر پر فرانس میں بدعنوانی کا جرم ثابت ہو چکا ہے اور ان کے پاس موجود متعدد اثاثے مختلف ممالک میں ضبط کیے جا چکے ہیں۔ تاہم وہ اپنے ملک میں اپنا ایک ایسا تصور پیش کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت وہ خود بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرتے دکھائی دیں۔
گذشتہ برس انھوں نے اپنے سوتیلے بھائی کی گرفتاری کا حکم دیا جن پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک ایسا طیارہ بیچا ہے جو قومی ایئرلائن کی ملکیت تھی۔
تاہم نائب صدر کی کوششوں کے باوجود وائرل ہونے والی سیکس ٹیپس پھر بھی شیئر ہوتی رہیں۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس ہفتے انھوں نے سرکاری دفاتر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی بات کی تاکہ ’نازیبا اور فحش حرکات‘ کی روک تھام ہو سکے۔
انھوں نے کہا کہ اس سکینڈل نے ’ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے‘ اور حکم دیا کہ کوئی بھی حکام جنھیں دفاتر میں سیکس کرتے پایا جائے گا انھیں فوری طور پر معطل کر دیا جائے گا کیونکہ یہ ’ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔‘
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کہانی میں دنیا بھر سے لوگوں نے بہت دلچسپی لی ہے۔ گوگل کے ڈیٹا کو دیکھیں تو ملک کے نام کے حوالے سے سرچ کرنے والوں کی تعداد میں گذشہ ہفتے کے آغاز کے بعد سے اضافہ ہوا ہے۔
پیر کو ایکس پر ایکواٹوریل گنی، کینیا، نائجیریا اور جنوبی افریقہ میں ٹاپ ٹرینڈز میں تھا، اور اس میں دلچسپی امریکی الیکشن سے بھی زیادہ تھی۔
اس کے باعث اکثر سماجی کارکنان خاصے مایوس ہیں۔ کروز کے مطابق ’ایکواٹوریل گنی کے مسائل ایک سیکس سکینڈل سے بہت بڑے ہیں۔ یہ سیکس سکینڈل ہمارے لیے ایک بیماری کی علامات میں سے ہے، بیماری نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظام کتنا کرپٹ ہے۔‘
اضافی رپورٹنگ: پیٹر موائی بی بی سی ویریفائی