سنہ 2020 میں انڈیا اور پاکستان کی جانب سے سیز فائر پر سختی سے عمل کرنے کے بعد سے اس خطے کی دونوں جانب سیاحت کو فروغ ملا ہے اور یہاں کے باسیوں کی زندگیاں بہتر ہو رہی ہیں۔
کشمیر کی وادئ کیرن میں برفیلے پانی اور تیز بہاوٴ والے دریائے نیلم کی ایک جانب جب سیاح گانے گاتے ہیں تو دوسری جانب سیاح ان کے لیے تالیاں بجاتے ہیں۔ دو ملکوں میں بٹے اس مقام پر سرحد یہی دریا ہے۔
ایسے میں دریا کے ایک جانب موجود پاکستانی سیاح گیت گائیں تو دوسری جانب انڈین شہری انھیں سن کر داد دے سکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔
زاہد وانی نے اپنی 30 سالہ زندگی کے 12 سال انڈین فوج کے لیے پورٹر (قلی) کے طور پر کام کرتے ہوئے گزارے ہیں۔ لیکن آج زاہد اپنے چھ کمروں والے اُس ہوم سٹے ہوٹل کے مالک ہیں جو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے نیلم زیریں کے بالکل سامنے سرحد پار واقع ہے۔
زاہد اور اُن جیسے کئی لڑکے لڑکیوں کی زندگیوں میں یہ خوشگوار تبدیلی 2020 میں انڈیا اور پاکستان کی افواج کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر 2003 میں ہوئے سیز فائر معاہدے پر سختی سے عمل کرنے کے باعث پیدا ہوئی ہے۔
زاہد کہتے ہیں کہ ’میں تو زندگی کو خطرے میں ڈال کر چند ہزار روپے کما رہا تھا لیکن سیز فائر کے بعد اس وادی کو حکومت نے سیاحت کے لیے کھولا تو میری زندگی بدل گئی، ہم نے اپنے پُرانے گھر کو ہوم سٹے میں تبدیل کردیا، اور اب میں کسی خوف کے بغیر اپنا روزگار کما رہا ہوں۔‘
کیرن کہاں واقع ہے؟
سرینگر سے شمال کی جانب 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کیرن وادی کا راستہ ہمالیائی سلسلے کے دشوار گزار خم دار پہاڑی راستوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہاں جانے کے لیے فوج اور مقامی پولیس سے اجازت لازمی ہے اور راستے کی خرابی سیاحوں پر گراں گزرتی ہے۔
فوجی چھاؤنیوں سے گزرتے ہوئے کیرن وادی میں داخل ہوتے ہی مغرب کی جانب پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے لوئر نیلم میں نصب فلیگ پوسٹ ہے جہاں پاکستان اور اس کے زیرانتظام کشمیر کے پرچم ساتھ ساتھ لہرا رہے ہیں اور اُن کی مخالف سمت میں انڈیا کا پرچم ہے۔
تقریباً 20 ہزار آبادی والا کیرن خطہ اب سمٹ کر 10 ہزار سے بھی کم کی آبادی والا علاقہ رہ چکا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 1947 میں کشمیر کی انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم کے بعد یہاں جو آبادی بچ گئی تھی اُس میں سے بیشتر لوگ 1990 میں مسلح شورش شروع ہوتے ہی ’اُس پار ہجرت کر گئے‘ اور اس طرح یہ جنگ کے سائے میں رہنے والا ایسا خطہ بن کے رہ گیا جہاں لوگ رشتہ داروں سے جدائی کا غم سہتے رہے۔
کراسنگ پوائنٹ کی خواہش
کیرن کے باسی اور سماجی کارکن راجہ مجاز خان کہتے ہیں کہ ’کیرن کا کوئی بھی شہری ایسا نہیں جس کا نصف خاندان اُس پار نہیں ہے۔ انڈین حکومت اگر ہمارے لیے کراسنگ پوائنٹ کو قائم کرتی ہے تو یہ اس سرحدی بستی کے باشندوں کے لیے سب سے بڑی بات ہو گی۔‘
کیرن کے لوگ آج کل سیز فائر کی وجہ سے اپنی زندگیاں بہتر ہوتے دیکھ رہے ہیں، لیکن اپنوں سے وہ دریائے نیلم کے دو کناروں پر نہایت فاصلے سے ہاتھ ہلا کر عید مبارک کہتے ہیں۔
سرتاج نامی ایک ٹیچر نے بتایا کہ ’یہاں سینکڑوں کہانیاں ہیں۔ کہیں ایک بہو کا میکہ اُس طرف ہے اور کہیں بیٹا اِدھر رہ گیا تھا اور ماں اُدھر چلی گئی۔‘
’سڑک اور نیٹ ورک بحال ہوجائے تو پھر کیا کہنے‘
کیرن جاڑے کے موسم میں پوری دُنیا سے کٹ جاتا ہے کیونکہ راستے بیشتر مقامات پر کچے ہیں اور پہاڑوں سے چٹانیں کھسکنے سے راستہ طویل مدت کے لیے بند ہوجاتا ہے۔
سیز فائر کے بعد ’بارڈر ٹورزم سکیم‘ سے مستفید ہونے والی مہروزہ مشتاق کہتی ہیں کہ ’سیز فائر سے پہلے تو یہاں لوگ 12ویں جماعت تک پڑھنے کے بعد یا تو فوج کے لیے پورٹر بن جاتے تھے یا شہر میں مزدوری کرتے تھے۔‘
’اب فوج اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے سیاحت کو فروغ دینے کی سکیم سے ہم لوگ کم از کم اپنا روزگارعزت سے کمانے لگے ہیں۔ لیکن اگر سڑک اور نیٹ ورک بحال ہوجائے تو پھر کیا کہنے۔‘
کیرن سیکٹر میں ابھی تک فون رابطے مکمل طور پر بحال نہیں ہیں۔ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست سے آئے بھائی بہن صوفیہ جاوید اور آفاق خورشید بھی زاہد وانی کے ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔
صوفیہ کہتی ہیں کہ ’ٹی وی اور اخباروں میں کشمیر کی سرحدوں کو ڈراؤنا اور خطرناک کہا جاتا ہے۔ یہاں دریا کے کنارے جب پاکستانی سرحد کی طرف سے لوگوں نے ہاتھ ہلائے تو مجھے احساس ہوا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہونے کی کتنی اہم ضرورت ہے۔‘
’سیاحتی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو میں 35 سال بعد واپس گھر لوٹا‘
کیرن ویلی کے باشندے راجہ اختر خان جموں کشمیر پولیس سے ڈی ایس پی کے طور ریٹائر ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو جنگ زدہ علاقہ تھا۔۔۔ روزانہ گولہ باری اور تشدد یہاں کا معمول تھا۔ میں نے سرینگر میں بھی مکان بنایا اور پوری سروس کے دوران وہیں رہا۔ لیکن میں نے جب سنا کہ یہاں سیز فائر کے بعد سیاحوں کی آمد و رفت شروع ہوئی ہے تو ہم سب لوگ گھر لوٹ آئے۔‘
راجہ اختر خان کا کہنا ہے کہ نصف سے زیادہ آبادی مشکل حالات میں پاکستان کی طرف ہجرت کر گئی ہے۔ ’رشتے بکھرے پڑے ہیں۔ میری بیوی کا پورا خاندان اُس پار ہے۔ اگر کوئی انتظام ہوتا جس میں لوگوں کو اپنوں سے ملنے جلنے، خوشی یا غمی میں ایک دوسرے کے پاس جانے کا موقع ملتا تو یہ بہت بڑی بات تھی۔‘
واضح رہے 2020 میں انڈیا اور پاکستان کی افواج نے سیز فائر پر سختی سے عمل کرنے کا نئے سرے سے اتفاق کیا تو انڈین حکومت نے سرحدی پٹیوں، خاص طور پر کیرن جہاں سے دوسری طرف کا کشمیر اور وہاں کی عوامی زندگی کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے، میں سیاحت کی اجازت دے دی۔