امریکی انتخابات کے بعد فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ اور نجی کلب مار اے لاگو طاقت کا نیا مرکز بن چکا ہے جسے ’سرمائی وائٹ ہاؤس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب کے بعد فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائشگاہ اور نجی کلب ’مار اے لاگو‘ طاقت کا نیا مرکز بن چکا ہے جسے ’سرمائی وائٹ ہاؤس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ٹرمپ کی فتح کے بعد نئی انتظامیہ کا حصہ بننے کے خواہش مندوں سمیت امریکہ کی بااثر شخصیات اس وقت اسی مقام پر نظر آ رہی ہیں جہاں بند دروازوں کے پیچھے نو منتخب صدر اپنی نئی کابینہ چننے کے مرحلے میں ہیں۔
واضح رہے کہ جو بائیڈن جنوری تک امریکی صدر کے عہدے پر رہیں گے تاہم فلوریڈا میں یہ مقام اس وقت امریکہ میں سیاسی طاقت کا نیا مرکز ہے جہاں صرف دو سال قبل ہی امریکی ایف بی آئی نے چھاپہ مارا تھا اور جوہری ہتھیاروں، جاسوس سیٹلائیٹ سے متعلق حساس نوعیت کی خفیہ دستاویزات ایک باتھ روم سے برآمد کی تھیں۔
تاہم اسی مقام پر آج روبوٹ کتے اور کشتیوں میں گشت کرتے مسلح محافظ دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا کے سب سے امیر شخص اور ٹیسلا سمیت ’ایکس‘ کے مالک ایلون مسک بھی یہی موجود ہیں۔
حیران کن طور پر ایلون مسک، جنھوں نے الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کی کھل کر حمایت کی، عالمی رہنماؤں سے ٹرمپ کی بات چیت کے دوران بھی موجود رہے۔
ایلون مسک ٹرمپ کے شانہ بشانہ ہیں اور انھیں ’پالم بیچ‘ کے بین الاقوامی ایئر پورٹ کے رن وے کے ساتھ ساتھ نجی کلب میں ٹرمپ کے بیٹے اور ان کے دیگر اہلخانہ کے ساتھ تصاویر میں دیکھا گیا۔
جو لوگ اتنے خوش قسمت نہیں کہ انھیں ’مار اے لاگو‘ میں مدعو کیا گیا ہو، ان کے پاس قریب ہی کسی ہوٹل میں رکنے کا راستہ موجود ہے۔ یہاں کے ہوٹل ایسے افراد سے بھرے ہوئے ہیں جو نئی انتظامیہ میں جگہ کے خواہشمند یا پھر ٹرمپ کے مداح ہیں۔
امریکہ کے ایک نامور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے رابرٹ کینیڈی بھی ایک ہوٹل میں دکھائی دیے۔ وہ خود بھی ایک زمانے میں صدارتی عہدے کے خواہشمند تھے لیکن اب ان کی نظریں صحت کی پالیسی اور ٹرمپ کی انتظامیہ میں اپنے لیے کردار حاصل کرنے پر مرکوز ہیں۔
ڈیموکریٹس کا ساتھ چھوڑ کر رپبلکن جماعت میں شامل ہونے والے رابرٹ کینیڈی نے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ ’ہر قسم کے نظریے سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور ہمیں ایک ایسی ٹیم کی ضرورت ہو گی جو ہمارے نظریے کے لیے لڑ سکے۔‘
ایک اور ہوٹل کے باہر، نوجوان ملازمین کی نظریں ’الٹیمیٹ فائٹنگ چیمپیئن شپ‘ کے چیف ایگزیکٹو ڈانا وائٹ کو دیکھ کر چمک اٹھیں جو الیکشن کے نتائج کی رات اپنے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ موجود تھے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں۔
لیکن یہ بات سب کے لیے نہیں کہی جا سکتی۔ بی بی سی کا سامنا ایک ایسے شخص سے بھی ہوا جس نے کہا کہ ’یہ سب کے لیے موقع ہے اور رپبلکن جماعت کے مختلف دھڑوں سے تعلق رکھنے والے اس وقت برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ٹرمپ کو یہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے کہ لوگ ان کے آگے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور ان کی تعریف کر رہے ہیں۔‘
تاہم انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ’بہت سے لوگ ابھی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ انھیں کوئی کردار نہیں چاہیے۔‘
ممکنہ طور پر ٹرمپ منتخب اراکین کے بجائے غیر منتخب افراد کو سینیئر عہدے دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
ٹرمپ کے بیٹے ڈون جونیئر نے فوکس سے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایسے لوگوں کو جانچا جا رہا ہے جو ’خود کو ٹرمپ سے بہتر نہ سمجھتے ہوں۔‘
خود ٹرمپ بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اس بار کچھ مختلف کرنے جا رہے ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلے دور صدارت میں ’سب سے بڑی غلطی برے یا بے وفا لوگوں کو چننا تھا۔‘
2016 میں رپبلکن جماعت کی حکومت بنانے کا ذمہ سابق گورنر کرس کرسٹی کو سونپا گیا تھا لیکن انتخاب جیتنے کے بعد انھیں فارغ کر دیا گیا اور ٹرمپ کی ٹیم نے ایک غیر روایتی راستہ اپنایا۔
ایسے میں نیو یارک میں ٹرمپ ٹاور نے اہمیت اختیار کر لی جہاں کیمروں کے سامنے لوگ قطار در قطار ٹرمپ کی انتظامیہ میں شامل ہونے کی خواہش کے ساتھ پہنچے۔
جب دنیا یہ سوچ رہی تھی کہ ٹرمپ کی صدارت کیسی ہو گی، وال سٹریٹ، میڈیا، سیاست اور انٹرٹینمنٹ کی بااثر شخصیات بشمول بل گیٹس، ایل گور، ٹرمپ سے ملاقات کرتے دکھائی دیے لیکن اس بار ٹرمپ وفاداری کو ترجیح دیں گے اور دیکھیں گے کہ کس نے ان کا ساتھ دیا۔
مار اے لاگو میں، جہاں کسی قلعے کی مانند سکیورٹی انتظامات ہیں، پوری دنیا کا میڈیا موجود ہے لیکن اب تک زیادہ تر پیشرفت کیمروں کے سامنے نہیں بلکہ بند کمروں میں ہو رہی ہے۔
تاہم ٹرمپ نے فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی سوزی وائلز کو وائٹ ہاوس کا چیف آف سٹاف تعینات کر دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ قدامت پسند فلوریڈا کو ان کی انتظامیہ میں کافی جگہ ملے گی۔
سلیٹر بیلس ایک لابنگ فرم کے شریک بانی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ سوزی ’امریکی انتخابی سیاست کی خاتون آہن ہیں۔‘
یاد رہے کہ جب ٹرمپ نے 1980 میں مار اے لاگو خریدا تھا تو پہلی بار اس مقام پر آمد کے موقع پر مقامی سطح پر کچھ گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا تاہم آج یہاں یہ واضح ہے کہ یہ ٹرمپ کا علاقہ ہے۔
اگلے ہفتے ارجنٹینا کے صدر بھی یہیں ٹرمپ اور ایلون مسک سے ملاقات کریں گے جبکہ سی پیک یعنی کنزرویٹیو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس کا سالانہ اجلاس بھی یہاں منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں شرکت کے لیے 25 ہزار ڈالر کی ٹکٹ خریدنا ہو گی۔
صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ طاقت کا یہ مرکز نہیں چھوڑیں گے۔ سلیٹر بیلس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ دوسرے دور صدارت میں زیادہ سے زیادہ وقت فلوریڈا میں گزارنا چاہیں گے۔ ’یعنی مار اے لاگو سیاسی کائنات میں سب سے مقدس ریئل سٹیٹ کا درجہ اختیار کر لے گی۔‘