انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے راج گڑھ ضلع میں یہ روایت نسلوں سے چلی آ رہی ہے، جسے ’جھگڑا ناترا‘ کہا جاتا ہے اسے تحت رشتہ ٹوٹنے کے بعد لڑکی کو لڑکے اور اس کے گھر والوں کو لاکھوں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
’ہمارے معاشرے میں بچپن میں ہی منگنی کر دی جاتی ہے اور پھر لڑکیوں کے سارے فیصلے سسرال والے کرتے ہیں۔ اگر لڑکی اس رشتے سے باہر آنا چاہے تو رشتہ توڑنے کے لیے پیسے مانگے جاتے ہیں۔ میرے سسرال والوں نے مجھ سے 18 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔‘
انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے راج گڑھ ضلع کی کوشلیا کے مطابق یہ روایت یہاں نسلوں سے چلی آ رہی ہے، جسے ’جھگڑا ناترا‘ کہا جاتا ہے۔
پگاڑیا گاؤں کی رہنے والی کوشلیا کی اس روایت کے تحت دو سال کی عمر میں منگنی ہوئی اور سنہ2021 میں جب وہ 22 برس کی تھیں تو ان کی شادی ہوئی۔
ان کے والد پیشے کے اعتبار سے کسان ہیں۔
کوشلیا کہتی ہیں کہ ’ان تین برسوں کے دوران میں نے تشدد دیکھا۔ مجھ سے پانچ لاکھ روپے اور موٹر سائیکل کا مطالبہ کیا گیا لیکن جب میں یہ برداشت نہ کر سکی تو میں اپنے والدین کے گھر واپس چلی گئی۔‘
’شادی سے آزاد کرنے کے لیے 18 لاکھ روپے مانگے گئے‘
سماجی دباؤ اور رشتہ ٹوٹنے کے خوف کی وجہ سے کوشلیا کے گھر والے نہیں چاہتے تھے کہ معاملہ آگے بڑھے اور ابتدائی طور پر انھوں نے کوشلیا کو سمجھانے کی کوشش کی اور کئی بار اسے واپس سسرال بھی بھیجا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے مارا پیٹا جاتا تھا۔ میں آگے پڑھنا اور نوکری کرنا چاہتی تھی لیکن شادی کے بندھن سے آزاد کرنے کے لیے مجھ سے 18 لاکھ روپے مانگے گئے۔‘
سنہ 2023 میں کوشلیا جب اپنے والدین کے گھر آئیں تو انھوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے سسرال واپس نہیں جائیں گی تاہم گھر والوں نے انھیں دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی۔
کوشلیا جانتی تھیں کہ ان کے سسرال والوں کے مطالبے کے مطابق رقم ادا کرنا آسان نہیں ہو گا۔
پھر یہ معاملہ پنچایت تک پہنچا اور فیصلہ ہوا کہ اگر کوشلیا شادی توڑنا چاہتی ہیں تو انھیں 18 لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔
یہ روایت کیا ہے؟
راج گڑھ ضلع میں 52 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں اور 20-24 برس کی لڑکیوں میں سے 46 فیصد ایسی ہیں جن کی شادی 18 سال سے پہلے ہو جاتی ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق راج گڑھ کی کل آبادی 15.45 لاکھ اور یہاں 7.55 لاکھ سے زیادہ خواتین ہیں۔
مدھیہ پردیش میں راج گڑھ کے علاوہ راجستھان میں آگر مالوا، گونا اور جھالاواڑ، چتور گڑھ سے چتور گڑھ وہ علاقے ہیں جہاں یہ روایت اب بھی جاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں یہ رواج 100 سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔
سیما سنگھ 1989 سے راج گڑھ کے پی جی کالج میں سماجیات پڑھا رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جھگڑا ناترا کے رواج کی کوئی تحریری تاریخ نہیں لیکن یہ صدیوں پرانی روایت ہے اور یہ بیوہ عورتوں اور غیر شادی شدہ عورتوں اور مردوں کے ساتھ رہنے کی روایت تھی تاکہ وہ بھی سماجی طور پر بہتر زندگی گزار سکیں۔‘
ان کے مطابق اس روایت کے تحت بیوہ خواتین کو دوبارہ سماجی زندگی میں حصہ لینے کا موقع ملا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آئی اور آج یہ ایک طرح کی خواتین کی سودے بازی بن گئی، جس میں لڑکیوں کی شادی یا منگنی ان کے بچپن میں ہی ہو جاتی ہے اور بعد میں جب رشتے میں دراڑ آ جاتی ہے تو لڑکیوں سے پیسے مانگے جاتے ہیں۔
ایسے معاملات میں پنچایت کے کردار پر سیما سنگھ کہتی ہیں کہ ’یہ معاملے پنچایت تک اس وقت پہنچتے ہیں جب لڑکی یا تو اس کی مخالفت کرتی ہے یا لڑکی پیسے دینے سے قاصر ہوتی ہے کیونکہ لڑکے والے ہمیشہ بہت زیادہ رقم مانگتے ہیں۔‘
مقامی صحافی اور سماجی کارکن بھانو ٹھاکر کا کہنا ہے کہ ’مقامی لوگوں میں اس رسم کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ اس کے تحت منگنی کو کورٹ میرج سے زیادہ مستقل سمجھا جاتا ہے۔‘
پچھلے تین سال میں صرف راج گڑھ ضلع میں اس روایت کے تحت 500 سے زیادہ کیس درج کیے گئے تاہم بھانو ٹھاکر کا کہنا ہے کہ یہ صرف وہ کیس ہیں، جو رپورٹ ہوئے۔ ’بہت سے ایسے کیسز بھی ہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے اس لیے ان کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔‘
تین سال میں 500 مقدمات درج
ہم نے کوشلیا کے معاملے پر راج گڑھ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ آدتیہ مشرا سے بات کی۔ ایس پی آدتیہ مشرا کا کہنا ہے کہ ’یہ مکمل طور پر غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے جس کی وجہ سے آج بھی یہاں کے لوگ رسم و رواج کے نام پر خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
آدتیہ مشرا کا کہنا ہے کہ ’ایسے بہت سے معاملات ہیں جب رشتہ ٹوٹنے کے بعد لڑکی کو لڑکے اور اس کے گھر والوں کو لاکھوں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ خواتین کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے اور معاشرے کے لوگ اسے بالکل درست سمجھتے ہیں۔‘
ان کے بقول گذشتہ تین سال میں تقریباً 500 مقدمات درج کیے گئے ہیں جسے وہ میں مثبت پہلو کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ اتنے برسوں کے بعد کم از کم متاثرین میں یہ ہمت آئی کہ وہ آگے آئیں اور قانون کا سہارا لیں۔
سیما سنگھ کہتی ہیں کہ ’اس کو ’لڑکیوں کی سودے بازی‘ کہا جانا چاہیے کیونکہ اس روایت کے تحت، جب لڑکا پیسے کا مطالبہ کرتا ہے تو لڑکی کے گھر والے اپنی بیٹی کو واپس سسرال بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘
منگی بائی کی کہانی
راج گڑھ سے 20 کلومیٹر دور کوڈاکیا گاؤں میں رہنے والی منگی بائی کی کہانی بھی کوشلیا سے ملتی جلتی ہے۔
منگی بائی اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے جذباتی ہو گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے وہاں (سسرال) نہ تو کھانا ملا اور نہ ہی سونے کے لیے بستر۔ جب میں نے اپنے شوہر کو شراب پینے سے روکا تو مجھے مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں میری زندگی برباد ہو گئی۔ ہم بہت غریب لوگ ہیں۔ میرے خواب بڑے نہیں تھے، میں صرف ایک خوشگوار زندگی چاہتی تھی لیکن مجھے وہ بھی نہیں ملی۔‘
منگی بائی کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے اپنی شادی ختم کرنا چاہی تو ان سے پانچ لاکھ روپے مانگے گئے۔
جنوری 2023 میں منگی بائی نے اپنے شوہر، سسر اور بہنوئی کے خلاف راج گڑھ کے کھلچی پور تھانے میں مار پیٹ اور رقم کا مطالبہ کرنے کی شکایت درج کرائی تھی۔
منگی بائی کے شوہر کمل سنگھ، بہنوئی مانگی لال اور ان کے سسرال کنور لال کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 498 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا لیکن ابھی منگی بائی کے شوہر اور ان کے سسرال کے دیگر افراد ضمانت پر باہر ہیں۔
منگی بائی فی الحال اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہیں۔ منگی بائی کے والد اور ان کے دو بھائی مزدوری کرتے ہیں۔
ان کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس رقم ادا کرنے کے لیے 5 لاکھ روپے نہیں اور جب تک وہ رقم ادا نہیں کر دیتے، وہ اپنی بیٹی کی کہیں اور شادی نہیں کر سکتے۔
ادھر منگی بائی کے شوہر کملیش نے دوسری شادی کر لی ہے۔ کملیش نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے منگی بائی کے والد کو تقریباً تین لاکھ روپے دیے اور یہ رقم چھ ماہ قبل دی گئی تھی۔
’شادی کے وقت میرے گھر والوں نے منگی بائی کو ایک تولہ سونا، ایک کلو چاندی دی تھی۔ ہم صرف اپنا سامان مانگ رہے ہیں۔‘
جب ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ رقم کیوں دی گئی تھی تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ساتھ ہی منگی بائی کا الزام ہے کہ کملیش دوسری شادی کرنے کے بعد بھی ان سے پیسے مانگ رہے ہیں۔
’زیادہ فیصلے لڑکے والوں کے حق میں آتے ہیں‘
ایسی پنچایت میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والے 70 سالہ پون کمار (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ صدیوں سے چلی آ رہی اس روایت میں زیادہ تر فیصلے لڑکے والوں کے حق میں ہی آتے ہیں۔
پون کمار کہتے ہیں کہ ’میں نے کئی پنچایتوں میں بیٹھ کر 60 ہزار روپے سے لے کر 8 لاکھ روپے تک کے تنازعات کو حل کرایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اکثر بچپن میں رشتے طے ہونے کی وجہ سے لڑکیاں بعد میں رشتہ توڑ دیتی ہیں۔ کچھ معاملات میں لڑکوں کا بھی قصور ہوتا ہے، اس لیے ایسے معاملات میں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ لڑکی والوں کو کم سے کم رقم ادا کرنی پڑے لیکن 90 فیصد معاملات میں لڑکی والوں کو پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔‘
سماجی کارکن کیا کہتے ہیں؟
سماجی کارکن مونا سستانی، جو ایک دہائی سے اس طرز عمل کے خلاف کام کر رہی ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ عمل خواتین مخالف اور پدرانہ سوچ کو فروغ دیتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری شادی سیاسی گھرانے میں ہوئی اور جب 1989 میں میری شادی ہوئی تو میں یہاں اس رواج کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ میں نے اس رواج کے خلاف آواز اٹھانے کا ارادہ کیا۔‘
ان کی تنظیم اس روایت کے تحت مقدمات میں لڑکی والوں کی مدد کرتی ہے تاکہ ان پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
مونا سستانی کا کہنا ہے کہ صرف پچھلے 5 سال میں ان کی تنظیم نے تقریباً 237 لڑکیوں کو آزاد کرایا اور ان میں سے اکثر لڑکیوں کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرنا پڑا۔
مونا سستانی کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت مشکل کام ہے، بہت سے مذاکرات، سیاسی اور پولیس کے دباؤ سے، ہم نے صرف 5 سال میں 237 لڑکیوں کو بغیر کسی رقم کے آزاد کرایا۔ ان میں سے کئی کی دوسری شادی بھی ہو گئی اوروہ پہلے سے بہتر حالت میں ہیں۔‘
رامکلا گذشتہ چھ برس سے اس روایت کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ خود بھی اس روایت سے بچ گئی ہیں اور کہتی ہیں کہ جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہیں تو انھیں یہ کسی معجزے سے کم نہیں لگتا۔
اس سفر میں رامکلا کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ فی الحال پوسٹ گریجویشن کر رہی ہیں اور لڑکیوں اور خواتین کی مدد کر رہی ہیں۔
رامکلا کہتی ہیں کہ ’لڑکیوں کو رہا کروانا ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ لڑکیوں پر لڑائی جھگڑے کی صورت میں پیسے دینے کا بہت زیادہ سماجی دباؤ ہوتا ہے، ایسے میں جیسے ہی ہمارے پاس کوئی کیس آتا ہے، تو ہم سب سے پہلے اس کیس کو پولیس تک لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں، ہم لڑکے اور اس کے گھر والوں سے بھی بات کرتے ہیں۔ اگر وہ لوگ سمجھ جائیں تو ٹھیک، ورنہ قانون کا سہارا لے کر لڑکی کی مدد کرتے ہیں۔‘
اگرچہ رامکلا، مونا سستانی اور دیگر کئی لوگ اس روایت میں پھنسی لڑکیوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن کوشلیا اور منگی بائی جیسی ہزاروں لڑکیاں اب بھی اپنی زندگی اور آزادی کے لیے لاکھوں روپے دینے پر مجبور ہیں۔