بشار الاسد شام میں گذشتہ نو برسوں سے روسی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں رہے۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں کریمن کا شام سے متعلق منصوبہ اچانک مٹ گیا اور اب بظاہر ماسکو کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
بشار الاسد شام میں گذشتہ نو برسوں سے روسی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں رہے۔ لیکن گذشتہ چند دنوں کے دوران ہونے والی پیش رفت میں روس کا شام سے متعلق منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا اور اب بظاہر ماسکو کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
ایک بیان میں روسی وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ اسد نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ وہ شام کے ڈرامائی واقعات پر تشویش کی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
اسد دور کا خاتمہ روس کی ساکھ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
2015 میں اسد کی مدد کے لیے ہزاروں فوجیوں پر مشتمل دستے بھیج کر روس نے خود کو عالمی طاقت کے طور پر ظاہر کیا تھا۔ یہ ولادیمیر پوتن کا پہلا بڑا چیلنج تھا کہ وہ دنیا پر مغربی غلبے کے باوجود سابق سوویت یونین کو کیسے آگے لے جا سکتے ہیں۔
بظاہر یہ پوتن کی کامیابی تھی۔ 2017 میں انھوں نے شام میں روسی اڈے حميميم کا دورہ کرتے ہوئے اس مشن کے کامیاب ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ایسی اطلاعات تھیں کہ روسی فضائی حملوں میں کئی شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مگر اس کے باوجود روسی وزارت خارجہ اس قدر بااعتماد تھی کہ وہ عالمی میڈیا کو طیارے پر لے گئی اور شام میں روسی فوجی آپریشن کا نظارہ دکھایا۔
مجھے یاد ہے ایک ایسی ہی دورے پر ایک افسر نے مجھے بتایا تھا کہ 'روس شام میں طویل عرصے کے لیے آیا ہے۔'
مگر یہ بات محض روسی ساکھ تک محدود نہیں تھی۔
فوجی مدد کے بدلے شامی حکام نے روس کو 49 سال کے لیے حمیمیم کا ہوائی اڈہ اور طرطرس کی بحری بیس لیز پر دیے۔ روس نے بحیرہ روم کے مشرق میں ایک اہم مقام پر قدم جما لیے تھے۔ یہ اڈے اس لیے اہم تھے کہ ان کی مدد سے فوجی کنٹریکٹرز کو افریقہ کے اندر اور باہر منتقل کیا جاسکتا تھا۔
اب ماسکو کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ شام میں اس کے اڈوں کا کیا ہوگا؟
ایک بیان میں روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں روسی اڈوں کو 'ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے'۔ تاہم اس کا دعویٰ ہے کہ ان اڈوں کو 'فی الحال کوئی سنگین خطرہ نہیں ہے۔'
مشرق وسطیٰ میں روس کے لیے اسد سب سے بڑے اتحادی تھے۔ کریملن نے ان پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ اس نے انھیں اقتدار میں رکھنے کے لیے مالی، عسکری اور سیاسی وسائل نچھاور کیے تھے۔
روسی حکام کے لیے مشکل ہوگا کہ اسد کی اقتدار سے بےدخلی کو اپنی ناکامی کے سوا کچھ اور ثابت کر سکے۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں روسی پارلیمان کے ایوان بالا کے نائب سپیکر كونستانتين كوساتشيف نے لکھا کہ 'جو کچھ شام میں ہو رہا ہے وہ سب کے لیے بہت مشکل ہے۔ اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں۔۔۔ یہ سب کے لیے ایک سانحہ ہے۔'
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’روسیوں کی ترجیح اپنے شہریوں، سفارتکاروں، ان کے خاندانوں اور ظاہر ہے فوجیوں کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔‘
شام میں روسی فوجیوں اور اڈوں کا کیا ہوگا؟
روس کا کہنا ہے کہ وہ شامی حزبِ اختلاف کے گروہوں کے ساتھ روابط بحال رکھے ہوئے ہے اور ان کی جانب سے روس کے فضائی اڈوں کی سکیورٹی کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ تاہم صورتحال اتنی بھی آسان نہیں ہے۔
اس وقت شام میں کُل 7500 روسی فوجی تعینات ہیں جن میں سے اکثر اہم روسی ملٹری تنصیبات پر موجود ہیں جن میں طرطوس اور لاذقیہ شامل ہیں۔
تاہم کئی درجن روسی فوجی جن میں سے اکثر ایلیٹ سپیشل فورسز کے آپریٹرز ہیں شام میں مختلف جگہوں پر ہیں۔ ان میں سے کچھ یونٹس باغیوں کی پیش قدمی کے دوران روسی اڈوں کے قریب آنے میں کامیاب ہو گئی تھیں تاہم درجنوں اب بھی مرکزی گروپ سے الگ ہو گئے تھے۔
ان معلومات کی تصدیق دو ریٹائرڈ روسی افسران نے کی ہے جو شام میں فوجیوں کے براہ راست رابطے میں ہوتے ہیں۔ ان دونوں نے ہی اس بارے میں اپنے بلاگز میں لکھا ہے۔
تاہم فجوی اڈوں کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے۔ بی بی سی روسی کی جانب سے جن سیٹلائٹ امیجز کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تارتوس میں بحری اڈے سے اکثر روسی بحری جہاز تین دسمبر تک جا چکے تھے۔
دوسری جانب لاذقیہ میں جنگی طیارے ایئرفیلڈ میں اب بھی موجود ہیں۔ اس حوالے سے غیر مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ کل سے یہاں سے طیاروں اور فوجیوں کا انخلا شروع ہو گا۔
روسی حکام نے تاحال ان رپورٹس کے بارے میں بات نہیں کی ہے۔