چاہے وہ دولت اسلامیہ کی جانب سے کیے گئے خودکش دھماکے ہوں یا دیگر پرتشدد واقعات، گذشتہ ایک دہائی کے دوران دمشق کے جنوب میں واقع ’سیدہ زینب‘ نامی علاقہ اکثر شہ سرخیوں کی زینت رہا ہے۔
چاہے وہ دولت اسلامیہ کی جانب سے کیے گئے خودکش دھماکے ہوں یا دیگر پرتشدد واقعات، گذشتہ ایک دہائی کے دوران دمشق کے جنوب میں واقع ’سیدہ زینب‘ نامی علاقہ اکثر شہ سرخیوں کی زینت رہا ہے۔
اس دورانیے میں یہاں واقع سیدہ زینب کا مزار کئی سیاسی اور عسکری مہمات کا مرکز رہا ہے۔ جس جگہ یہ مزار واقع ہے اس کے اِرد گرد کا علاقہ وقت کے ساتھ دمشق کے مضافات میں واقع ایک عام سے گاؤں سے بدل کر خطے کے اہم ترین شہر کا روپ اختیار کر چکا ہے۔
سیدہ زینب کی دمشق آمد
متعدد مسلم مؤرخین اور شیعہ روایات کے مطابق واقعہ کربلا 61 ہجری (سنہ 680 عیسوی) میں پیش آیا۔ اس جنگ میں امام حسین، اُن کے اہلخانہ اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی تھی۔ واقعہ کربلا کے بعد یزید بن معاویہ کی فوج امام حسین کی دو بہنوں حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم سمیت دیگر عورتوں اور بچوں کو قید کر کے کوفہ لے آئی۔
تاریخی حوالوں کے مطابق یہ تمام قیدی 12 محرم کو کوفہ پہنچے اور روایات کے مطابق اس سفر کے دوران قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ اور ہتک آمیز سلوک روا رکھا گیا۔
کوفہ میں اسیری کے دوران سیدہ زینب اپنے ساتھ قید بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والے اسیران کے رہنما کے طور پر اُبھریں۔ بعدازاں انھیں کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد نے دمشق بھیج دیا۔
روایات میں آتا ہے کہ دمشق میں سیدہ زینب اور یزید بن معاویہ کا آمنا سامنا ہوا اور یہیں حضرت زینب نے اپنا مشہور خطبہ دیا جس میں انھوں نے یزید پر کڑی تنقید کی۔ اس خطبے میں انھوں نے کہا کہ ’اپنی منصوبہ بندی کر لو، ہر ممکن کوشش کر لو، مگر خدا کی قسم، تم ہماری یاد کو نہیں مٹا پاؤ گے، نہ ہی ہمارے پاس موجود وحی کو ختم کر پاؤ گے، اور نہ ہی تم خود پر لگے اِس دھبے کو مٹا سکو گے، تمہاری رائے کی کوئی حیثیت نہیں اور تمہارے دن گنے جا چکے ہیں، جس دن منادی پکارے گا تو تمہارا یہ اجتماع بکھر جائے گا: ظالموں پر خدا کی لعنت ہو۔۔۔‘
سیدہ زینب کی وفات 62 ہجری (681 عیسوی) میں ہوئی۔ مسلمان خصوصاً اہل تشیع فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہر سال 15 رجب کو ان کا یومِ وفات مناتے ہیں۔
سیدہ زینب کہاں دفن ہیں؟
سیدہ زینب بنت علی کی تدفین کی جگہ تنازع کا باعث رہی ہے۔ کچھ روایات کے مطابق سیدہ زینب کی وفات مدینہ میں ہوئی۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ سیدہ زینب نے بعدازاں شام کا رُخ کیا جبکہ بعض روایات کے مطابق سیدہ زینب کو کربلا میں پیش آئے واقعات کا تذکرہ کرنے پر جلاوطن کر کے مصر بھیج دیا گیا تھا۔
مؤرخین کی اس معاملے پر متعدد آرا کے باعث حتمی طور پر یہ بتانا ممکن نہیں کہ انھیں کہاں دفن کیا گیا تھا۔ آیا ان کی قبر دمشق میں واقع مزار میں ہے یا قاہرہ کی سیدہ زینب مسجد میں۔
مثال کے طور پر، مؤرخ الطبری کے مطابق ان کی قبر قاہرہ میں واقع تیسری صدی ہجری کے ایک مزار میں موجودہے جب کہ دیگر تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ’فَی راوية‘ (دمشق کے مضافاتی علاقے کا پرانا نام) میں واقع مزار سیدہ زینب اور ام کلثوم کے لیے وقف ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دمشق کے مضافات میں واقع یہ مزار ایک بڑی مذہبی عبادت گاہ میں تبدیل ہو گیا جہاں ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں زائرین آتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ اب بھی یہ ابہام موجود ہے کہ آیا یہ واقعی سیدہ زینب کی آخری آرام گاہ ہے بھی کہ نہیں۔
فلسطینیوں اور شامیوں کے لیے پناہ گاہ سمجھا جانے والا الراویہ گاؤں
بی بی سی عربی کو دیے گئے انٹرویو میں شامی نژاد فلسطینی محقق اور ناول نگار تیسیر خلف کا کہنا ہے کہ زمین کے تاریخی ریکارڈز کے مطابق اس علاقے کا رجسٹرڈ نام ’راویہ‘ گاؤں ہے اور یہاں کے اصل باشندے غوطہ کے لوگ تھے۔
سنہ 1967 میں یہاں فلسطینی پناہ گزین اور گولان سے بے دخل ہونے والے شامی پناہ گزینوں کے دو کیمپ قائم کیے گئے جن میں سے ایک کو السیط کیمپ کہا جاتا ہے۔
20ویں صدی کے وسط سے اور 21ویں صدی کے آغاز تک یہ خطہ بنیادی طور پر فلسطینی پناہ گزینوں اور گولان سے تعلق رکھنے والے شامی پناہ گزینوں کی آبادیوں سے آباد تھا۔ 1980 کی دہائی میں یہاں کی آبادی کی اکثریت پناہ گزینوں پر مشتمل تھی۔
اس علاقے کے درمیان سے ایک سڑک دمشق کی طرف جاتی ہے جو اس علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب کے علاقوں کو چار، چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے وسط میں مزار موجود ہے۔
یہاں کا سب سے نمایاں سیاحتی علاقہ جنوب وہ مشرقی محلہ ہے جہاں سیدہ زینب کا مزار واقع ہے۔ علاقے کے اس حصے میں ہوٹلز اور بھیڑ بھاڑ والے بازار شامل ہیں۔ فلسطینی کیمپ اس محلے کے مخالف سمت میں جنوب مغرب میں واقع ہے۔
جہاں تک اس علاقے کے عراقی باشندوں کا تعلق ہے تو وہ شمال مشرق میں واقع محلے میں رہائش پذیر ہیں۔ اس جگہ کو العراقین سٹریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سنہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد اس علاقے میں بسنے والی عراقی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا۔
خطے پر ایرانی اثر و رسوخ
تیسیر خلف کہتے ہیں کہ اس علاقے میں ایرانیوں کی دلچسپی 1979 میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد شروع ہوئی۔ مزار کی پرانی عمارت کی بحالی کا کام ایرانی طرز پر شروع ہوا۔ گنبدوں اور میناروں میں سجاوٹ کے لیے نیلے رنگ کی ٹائلوں کا استعمال کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کے بعد ایرانیوں نے اس مزار سے ملحقہ جائیدادیں خریدنا شروع کیں اور رفتہ رفتہ 1990 کی دہائی میں سیدہ زینب کے مزار کا علاقہ ایک شہر میں تبدیل ہو گیا جہاں ایرانی فنڈنگ سے سکول، مدرسے اور ہسپتال قائم کیے گئے۔
خلف کے مطابق سنہ 2000 میں شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی موت کے بعد اس علاقے کی حدود مزید وسیع ہوئیں اور یہ علاقہ خطے میں موجود ایرانی شیعہ حکام اور شخصیات کا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ شام میں جاری جنگ کے دوران، یہ علاقہ بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے کی طرز پر ایک بڑے شہر میں تبدیل ہو گیا۔ اب یہاں بنیادی طور پر ایرانی، افغان اور عراقی شیعہ آباد ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
محقق ایڈیتھ اینڈریا ایلکے اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ کئی علما نے سیدہ زینب کے مزار سے ملحقہ شہر میں علمی دفاتر اور مدارس آباد کیے۔ امام خمینی کا مدرسہ اس شہر کے سب سے بڑے مدارس میں سے ایک ہے۔ اس کے منتظم خود ایرانی رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں۔
یہاں ایرانی اثرو رسوخ اس حد تک پھیل گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندے ان کی جانب سے جمعے کا خطبہ پڑھنے لگے۔
ان کے مطابق مذہبی سیاحت خصوصاً شیعہ زائرین کی تعداد میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں مقامی باشندوں نے اس علاقے کے مشرق اور جنوب مشرق میں ہوٹلز اور رہائشی عمارتیں تعمیر کرنے شروع کر دیں۔
حضرت زینب کے مزار کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق چھٹی صدی ہجری سے اس مزار کا انتظام شام کے المرتضی خاندان کے ہاتھ میں ہے۔ اس خاندان کے سید حسین بن شیخ الاسلام موسی نے راویہ گاؤں میں اپنی جائیدادیں اس مزار کے لیے وقف کر دیں۔ آج تک اُن کا خاندان شام کی وزارت اوقاف کے ساتھ مل کر مزار کے انتظامی و نگرانی کے امور دیکھتا ہے۔
پچھلی ایک دہائی میں یہ علاقہ کیسے تبدیل ہوا؟
شام میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری خانہ جنگی کے دوران یہ علاقہ اُن شیعہ جنگجوؤں کی توجہ کا مرکز بن گیا جو سُنی شدت پسند گروہوں سے سیدہ زینب کے مزار کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں آئے۔
آج سیدہ زینب کا مزار محض مذہبی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس مزار کی مذہبی شناخت کو مزار کے دفاع کے لیے آنے والی شیعہ تنظیموں کے سیاسی رجحان سے الگ کرنا مشکل ہے۔
شام میں ہونے والی جنگ کے دوران بارہا سیدہ زینب کے مزار کا محاصرہ کیا گیا اور اس پر بمباری کی گئی۔ اس مزار کے اطراف میں متحارب گروہوں کے درمیان شدید جھڑپیں بھی ہوئیں اور یہ علاقہ کئی سالوں سے میدان جنگ بنا رہا۔
بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے اس خطے کے امور سے واقف ایک شامی صحافی نے بتایا کہ غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد اسرائیلی حملوں کے خوف کے پیش نظر یہاں موجود حزب اللہ اور ایرانی حکام کے مراکز کو دوسرے علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا یہ علاقہ کئی سالوں تک میدانِ جنگ بنا رہا اور یہاں لبنانی حزب اللہ اور ایرانی حکام کی موجودگی کے بارے میں سب کو علم ہے۔
'پچھلی ایک دہائی میں یہ علاقہ ایک ایسے ایرانی، لبنانی مرکز میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں شامی، لبنانی اور عراقی شیعہ جنگجو موجود ہیں۔'
ہم نے علاقے میں ایران کی موجودگی اور اس کی نوعیت کے بارے میں جاننے کے لیے دمشق میں ایرانی سفارت خانے سے رابطہ کیا لیکن اب تک ہمارے سوالات کے جوابات موصول نہیں ہوئے ہیں۔