دو اینکرز سے اننگز کھولنے کا فیصلہ بھلے رضوان کا اپنا ہو، بھلے یہ عاقب جاوید کا ہو، کسی واضح منطق سے عاری تھا کہ اگر صائم ایوب پاور پلے کی پانچ مزید گیندیں کھیل پاتے تو یقیناً پاکستانی اننگز کا کچھ بھلا ہی ہوا ہوتا۔
ماضی قریب میں پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی فتوحات پر نظر ڈالی جائے تو ایک نمایاں رجحان بابر اعظم اور محمد رضوان کی کامیاب ساجھے داری کا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگر ماضی قریب میں پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ناکامیوں پر نظر ڈالی جائے تو بھی ایک حیران کُن رجحان اِسی ساجھے داری کا دکھائی دیتا ہے۔
شاید یہ نامانوس جنوبی افریقی کنڈیشنز میں نوجوان بیٹنگ آرڈر کے تحفظ کو اپنایا گیا سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ ایک بار پھر، حالیہ تجربات سے پلٹ کر، ماضی کی اُسی رجعت پسند ساجھے داری سے رجوع کیا گیا اور ایک بھاری ہدف کے تعاقب میں وہ دو پاکستانی بلے باز اننگز کھولنے آئے جن کے سٹرائیک ریٹ ہمیشہ مباحث کا موضوع رہے ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اگرچہ سٹرائیک ریٹ بہت اہمیت کا حامل ہے مگر آج بھی سارا کھیل صرف سٹرائیک ریٹ ہی کے گرد نہیں گھومتا، بلکہ اننگز میں ضرور ایسے مراحل آتے ہیں جہاں تجربہ اور تحمل ناگزیر ٹھہرتے ہیں۔
سو، یہ بحث اگرچہ کچھ معنویت نہیں رکھتی کہ یہ دونوں مشاق بلے باز ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی ضرورت بھی ہیں یا نہیں، لیکن یہ بحث بھی شروع سے آج تک سمٹ نہیں پائی کہ پاور پلے میں دو اینکرز کی اوپننگ کبھی دیرپا عمدہ نتائج کی بنیاد بن سکے گی۔
اگر پاکستان کی اس چال کا مقصد صائم ایوب کو نئی گیند سے بچانا تھا تو بھی یہ بے سود ٹھہری کہ بہت جلد انھیں کریز پر آنا ہی پڑا۔ بلکہ انھی کی اِس مختصر یلغار نے اپنی برق رفتاری سے پاکستانی اننگز کو وہ اعتماد پہنچایا کہ پاور پلے کا بھرم بچ گیا۔
مگر صائم کی یہ کاوش بھی شاہین آفریدی کے عزم کی طرح ناکافی ثابت ہوئی۔
ڈربن میں ایک بار پھر وہ شاہین آفریدی دیکھنے کو ملے جو پہلے ہی اوور میں وکٹیں لینے کے سبب معروف تھے۔ اُن کی رفتار اپنے اصل کو لوٹتی نظر آئی۔ ان کا ڈسپلن قابلِ دید تھا۔ اور پہلے ہی اوور میں انھوں نے پاکستان کو برتری کی راہ دکھائی۔
انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ سے ڈراپ کیے جانے کے بعد جو وقت شاہین کو ٹیم سے دور گزارنے کو ملا، شاید اس نے پچھلے ایک برس کے آف فیلڈ واقعات کی گرد بھی ان کے ذہن سے ہٹائی ہے اور ٹیسٹ کرکٹ سے وقتی فراغت نے بھی شاید کچھ نفسیاتی تقویت فراہم کی ہے۔
اِس جنوبی افریقی دورے پر جہاں دیگر سبھی پاکستانی سٹارز ٹیسٹ سیریز کا بھی حصہ ہوں گے، وہیں شاہین صرف چھ وائٹ بال میچز کھیل کر وطن لوٹ چکے ہوں گے۔ سو، اس دورے پر اپنی بہترین کرکٹ دکھلانے کو شاہین کے پاس صرف چھ دن ہیں۔
اور انہی میں سے پہلے دن کا بہترین فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے جنوبی افریقی ٹاپ آرڈر کی کہانی مختصر کر دی۔ اُدھر سے ابرار احمد کا پہلا سپیل بھی حاوی ہوا اور پروٹیز اننگز شروع میں ہی ہانپ کر رہ گئی۔
مگر پاکستان ڈیوڈ ملر کے لیے تیار نہ تھا۔
ملر نے پہلی گیند سے ہی جو عزائم دکھلائے، وہ اس مرجھاتی پروٹیز اننگز کا چہرہ دمکانے تک ساتھ نبھاتے چلے گئے۔ شاہین آفریدی کے دوسرے سپیل نے پاکستان کو میچ میں واپسی کی نوید تو دی مگر پھر جارج لنڈہ اُبھر آئے اور پاکستان اُن کے لیے بھی تیار نہ تھا۔
ملر کی طوفانی اننگز نے رضوان کے حساب کتاب یوں اتھل پتھل کیے کہ ڈیتھ اوورز میں پاکستان کی ساری ترتیب ہی بگڑ گئی۔
اگرچہ پاکستانی بولنگ پاور پلے کی عمدگی کے بعد مڈل اوورز میں ڈگمگائی، مگر عباس آفریدی کے نتیجہ خیز سپیل نے پھر بھی پاکستان کو اس خطرناک ہندسے سے محفوظ کیے رکھا جس کے تعاقب میں پاکستانی بیٹنگ لڑکھڑا سکتی تھی۔
لیکن سفیان مقیم کے آخری اوور میں لنڈہ کی یلغار نے جنوبی افریقی مجموعے کو وہاں تک پہنچا دیا جس کا تصور شاید خود اس کے لیے بھی محال تھا۔ بہر کیف یہ مجموعہ ایسا خطیر پھر بھی نہ تھا کہ پاکستانی بلے بازوں کے لیے کوئی جواز دے پاتا۔
دو اینکرز سے اننگز کھولنے کا فیصلہ بھلے رضوان کا اپنا ہو، بھلے یہ عاقب جاوید کا ہو، کسی واضح منطق سے عاری تھا کہ اگر صائم ایوب پاور پلے کی پانچ مزید گیندیں کھیل پاتے تو یقیناً پاکستانی اننگز کا کچھ بھلا ہی ہوا ہوتا۔
اور پھر اسی فیصلے کی طرح شاہین آفریدی کو عرفان خان سے پہلے بیٹنگ کے لیے بھیجنا بھی مضحکہ خیز تھا۔ بلاشبہ عرفان خان بہت باصلاحیت بلے باز ہیں جو ڈیتھ اوورز میں اپنی پاور ہٹنگ سے میچ کی سمت بدل سکتے ہیں، مگر انھیں بھی یہ جادو جگانے کو کریز پر کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔
پاکستان نے یہ وقت اُن کی بجائے شاہین آفریدی سے کسی انہونی کی امید میں خرچ کر دیا۔
دوسری جانب، تیسری وکٹ گرنے کے بعد رضوان پر طاری خوابیدگی مزید گہری ہو گئی اور جس خول میں وہ پاکستانی اننگز کو لے گئے، جب تک وہاں سے نکلنے کو عزم میسر آیا، تب تک وقت ہاتھوں سے پھسل چکا تھا۔