اسلام آباد میں ملازمت کرنے والے نوجوان کی بیگ میں بند، ٹکڑوں میں بٹی لاش کامونکی برآمد: پولیس ایک ماہ بعد ملزمان تک کیسے پہنچی؟

13 نومبر کو وسطی پنجاب کے شہر کامونکی کے ایک نواحی قصبے سے گزرنے والے نالے کے قریب کچھ بچے کھیل کھیل میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے جب انھیں وہاں پارنی میں تیرتا ہوا ایک مشکوک بیگ نظر آیا۔
بیگ
Getty Images
علامتی تصویر

اس تحریر کے کچھ حصے قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتے ہیں۔

13 نومبر کو وسطیٰ پنجاب کے شہر کامونکی کے ایک نواحی قصبے سے گزرنے والے سیم نالے کے قریب کچھ بچے کھیل رہے تھے جب اُنھیں پانی میں تیرتا ہوا ایک مشکوک بیگ نظر آیا۔

ٹبہ محمد نگر نامی اُس علاقے میں کپڑے کا یہ بیگ سیم نالے کے کنارے ایک درخت کے ساتھ الجھ کر وہاں رُک سا گیا تھا۔ بچوں نے اپنی سی تفتیش کی اور بیگ میں انسانی اعضا دیکھ کر شور مچا دیا۔

یہ صورتحال قریب سے گزرنے والے افراد کے لیے عجیب و غریب تھی، چنانچہ ایک مقامی شخص نے اس واقعے اطلاع فوراً مقامی تھانے کے اہلکاروں کو بذریعہ فون دی اور جلد ہی پولیس کی ایک گاڑی موقع پر پہنچ گئی۔

وہاں پہنچنے والی پولیس ٹیم کے انچارج سب انسپکٹر نعمت علی کے مطابق اس بیگ میں انسانی اعضا نظر آ رہے تھے۔ بظاہر بیگ میں ایک لاش کے ٹکڑے تھے جن میں سر، دو ٹانگیں، دونوں بازو اور دھڑ کٹے ہوئے پڑے تھے۔

پولیس کے مطابق مقتول کے چہرے پر ہلکی داڑھی تھی اور بظاہر اس کی عمر 25، 26 سال کے لگ بھگ معلوم ہو رہی تھی۔

اس واقعے کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس نے مقتول کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ابتدائی طور پر ٹبہ محمد نگر اور گرد و نواح کے دیہاتوں کی مساجد میں اعلانات کروائے اور اس پراسرار قتل کا مقدمہ سب انسپکٹر نعمت علی کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا۔

’سوشل میڈیا کے ذریعے لواحقین کی تلاش‘

مقدمے کے اندراج کے ساتھ اس لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال بھجوایا گیا جبکہ مقتول کے چہرے کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال کر لواحقین کی تلاش شروع کی گئی۔

سوشل میڈیا پر یہ تصویر پوسٹ کیے جانے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ایک شخص نے جائے وقوعہ سے 325 کلومیٹر دور واقع پنجاب کے ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا سے پولیس سے رابطہ کیا۔

فون کرنے والے نے اپنی شناخت قتل ہونے والے شخص ندیم سرور کے بھائی کے طور پر کروائی۔

مقتول شخص (ندیم) کے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ اُن کے بھائی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بطور ویٹر عارضی ملازمت کرتے تھے۔

بھائی نے پولیس کو مزید آگاہ کیا کہ انھوں نے 10 نومبر کو اسلام آباد کے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں اپنے بھائی کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا تاہم لگ بھگ ایک ماہ گزرنے کے باوجود اسلام آباد پولیس انھیں نہیں ڈھونڈ سکی تھی۔

بھائی کی گمشدگی کی اسلام آباد میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ ’ندیم سرور 9 نومبر کی شام پانچ بجے آرمی میس ہیڈکوارٹر سدھراں پر کام کے لیے گئے۔ وہاں سے انھوں نے ایک دن کی چھٹی لی۔۔۔ 10 نومبر کو صبح 10 بجے تک اُن کا موبائل فون آن رہا۔ اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ دونوں نمبر بند جا رہے ہیں جس سے گھر کے افراد پریشان ہیں۔۔۔‘

پوسٹ مارٹم کے بعد ندیم سرور کے بھائی اُن کی میت کو تدفین کے لیے بورے والا میں اپنے آبائی علاقے لے گئے۔

مگر تدفین کے بعد بھی کئی سوالات باقی تھے جیسا کہ اسلام آباد میں ملازمت کرنے والے ایک نوجوان کی لاش آخر کامونکی سے کیسے ملی اور یہ کہ وہ کیا حالات تھے جن میں مقتول شخص اس شہر تک پہنچا جہاں اس کا قتل ہوا؟

انھی سوالات کا جواب جاننے کے لیے مقامی پولیس اور کرائم سین انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کو اپنی تفتیش کا دائرہ وسیع کرنا پڑا۔

’ندیم کے موبائل پر موصول ہونے والی طویل کالز‘

پولیس کی مشکل یہ تھی کہ انھیں بیگ سے محض ندیم کی لاش کے ٹکڑے ملے تھے جبکہ اُن کا موبائل فون اور ذاتی استعمال کی دیگر اشیا کو کچھ پتا نہیں تھا۔

پولیس نے بھائی سے ندیم کے زیرِ استعمال دونوں فون نمبرز حاصل کیے۔

اس کیس کی تفتیش سے منسلک افسران کے مطابق موبائل فون ریکارڈ سے پولیس کو معلوم ہوا کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران ندیم کو کن افراد کی طرف سے کالز موصول ہوئی تھیں۔

اُن کے مطابق 9 نومبر (ندیم کی گمشدگی کا دن) کو ایک ہی نمبر سے وقفے وقفے سے کئی کالز موصول ہوئی تھیں اور اُن کالز کا دورانیہ موصول ہونے والی باقی کالز سے زیادہ تھا۔

پولیس کے مطابق یہ نمبر ٹبہ محمد نگر کی رہائشی خاتون کے نام پر رجسٹرڈ تھا جس پر پولیس نے انھیں اور اُن کے والد کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا اور تھانے بلایا۔

پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش اور پوچھ گچھ کے دوران خاتون اور اُن کے والد کی جانب سے معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا اس سے قطع نظر کہ فون ریکارڈ کچھ اور ظاہر کر رہا تھا اور خاتون اور ندیم کے بیچ طویل گفتگو کا ریکارڈ موجود تھا۔

تھانہ صدر کامونکی کے ایس ایچ او ندیم مالک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پوچھ گچھ کے بعد ملزمان نے ابتدائی تفتیش میں دورانِ حراست اقرار جرم کر لیا ہے اور بتایا کہ مبینہ طور پر ندیم کو قتل کرنے کے بعد انھوں نے مقتول کا موبائل فون، شناختی کارڈ، پرس اور ذاتی استعمال کی دیگر اشیا جلا دی تھیں اور انھیں ایک شاپر میں بند کر کے سیم نالہ میں پھینک دیا تھا تاکہ قتل کا سراغ نہ مل سکے۔‘

’ندیم لاعلم تھے کہ کامونکی میں ان کی موت کا جال بچھایا گیا‘

ندیم مالک نے دعویٰ کیا کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ندیم ساڑھے تین سال قبل ٹبہ محمد نگر کے قریب واقع نٹ بولٹ بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا، جہاں ان کا مذکورہ خاتون سے ملزم خاتون سے رابطہ قائم ہوا۔

اُن کے مطابق خاتون اور اُن کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ ندیم کے پاس خاتون کی چند ویڈیوز تھیں ’جنھیں وہ ڈیلیٹ نہیں کر رہا تھا۔‘

ندیم مالک کے مطابق ’رواں سال اپریل میں گھر والوں نے لڑکی کی شادی کی تھی جس کے بعد ندیم سرور اسلام آباد میں بطور ویٹر کام کرنے کے لیے کامونکی سے اسلام آباد چلے گئے۔‘

تاہم پولیس کے بقول خاتون اور اُن کے والد کا دعویٰ ہے کہ ندیم خاتون سے ’رابطہ ختم نہیں کر رہے تھے اور ملاقات کے لیے مجبور کرتے تھے۔‘

ایس ایچ او نے مزید دعویٰ کیا کہ ’پولیس کو خاتون کے موبائل فون سے جو واٹس ایپ پیغامات کا ریکارڈ ملا، اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خاتون کی طرف سے ملاقات کے بار بار انکار پر مقتول ندیم سرور بلیک میلنگ پر اُتر آیا تھا۔۔۔ انھوں نے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی دھمکی دی تھی۔۔۔ خاتون اُس کی منت سماجت کرتی رہیں کہ ایسا نہ کرنا، میرے سسرال والوں کو پہلے ہی مجھ پر شک ہے۔۔۔‘

ایس ایچ او ندیم مالک نے بتایا کہ ’جب سسرال والوں نے شک کی بنیاد پر خاتون کو میکے واپس بھجوایا تو اس نے اپنے والد کو ساری حقیقت بتا دی۔۔۔ خاتون نے اپنے والد کی (مقتول) ندیم سرور سے فون پر بات بھی کروائی لیکن بات چیت تلخ کلامی پر اختتام پذیر ہوئی۔‘

پولیس کی تفتیش کے مطابق اس قتل کی ’باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔ خاتون نے 9 نومبر کو ندیم سرور کو فون کیا کہ میرے گھر والے کل (10 نومبر کو) ایک شادی کے سلسلے میں شہر سے باہر جا رہے ہیں، اگر مجھ سے ملنا ہے تو آ جاؤ۔‘

’ندیم سرور 9 اور 10 نومبر کی درمیانی شب اسلام آباد سے بس پر بیٹھے اور صبح سویرے ٹبہ محمد نگر پہنچ گئے جہاں وہ لاعلم تھے کہ ان کی موت کا جال بچھایا جا چکا ہے۔‘

ایس ایچ او نے بتایا کہ تفتیش میں ملزمان نے بتایا کہ ’خاتون کے والد اور شوہر نے مبینہ طور پر مقتول ندیم سرور کو گھر کے عقبی کمرے میں بند کر دیا تاکہ اُن کی آواز باہر نہ جائے۔‘

’انھوں نے رسیوں سے باندھ کر ندیم کو قتل کیا اور اس کے جسم کے کئی ٹکڑے کیے، انھیں پلاسٹک کے شاپروں میں ڈالا اور گھر میں موجود ایک بیگ میں ڈال کر رات ہونے کا انتظار کیا۔ رات ڈیڑھ بجے انھوں نے اس بیگ کو گھر سے لگ بھگ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موجود سیم نالے کے پُل پر کھڑے ہو کر نیچے پھینک دیا۔‘

ابتدائی تفتیش اور پوچھ گچھ کے بعد پولیس نے ندیم سرور کے قتل کے الزام میں خاتون، ان کے شوہر اور والد کو باقاعدہ گرفتار کیا اور ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا۔

منگل (10 دسمبر) کو تینوں ملزمان کو دوبارہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان سے ’آلہ قتل' بگدا، ٹوکہ اور چاقو برآمد کر کے تفتیش مکمل کر لی گئی ہے۔‘ اس پر عدالت نے تینوں ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر سینٹرل جیل گوجرانوالہ بھیج دیا۔

مقتول کے بھائی نے ملزمان کے دعوؤں کو مسترد کیا

دوسری طرف ندیم سرور کے بڑے بھائی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ملزمان کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ مقتول پر ’نازیبا ویڈیو بنانے کا الزام بے بنیاد ہے۔‘

’جس شخص کے پاس بٹنوں والا فون ہو، وہ کیسے ویڈیو بنا سکتا ہے۔۔۔ پولیس میرے بھائی کا موبائل فون برآمد کروائے۔‘

ندیم کے بھائی کا مزید کہنا تھا کہ ’غلطی کسی بھی انسان سے ہو سکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کسی کو دو دن تک حبس بے جا میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور پھر جانوروں کی طرح ذبح کر دیا جائے۔‘

انھوں نے کہا ہے کہ ’پولیس ملزم پارٹی کی تمام باتوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کی بجائے میرٹ پر تفتیش کرے اور جو ثبوت ہیں انھیں ہمارے سامنے لائے۔ ہمیں ایسی بات بتائی جا رہی ہے جسے ہمارا دماغ قبول کرنے کو تیار نہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.