اسرائیل کا کہنا ہے کہ شام میں جاری اس کی فوجی کارروائیوں کا مقصد اسرائیلی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے تاہم کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل اپنے ایک دیرینہ دشمن (شام) کو کمزور کرنے کے لیے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل شام میں ’عسکری اہداف‘ پر اب تک سینکڑوں حملے کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے اسرائیل اور شام کے درمیان واقع گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی قائم غیر فوجی زون یا بفرزون پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ شام میں جاری اس کی فوجی کارروائیوں کا مقصد اسرائیلی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے تاہم کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل اپنے ایک دیرینہ دشمن (شام) کو کمزور کرنے کے لیے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
منگل کے روز اسرائیل کی جانب سے شام کے بحری بیڑے پر بھی ایک بڑے حملے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اُس کے جنگی طیاروں نے پیر کی رات البیضا اور اللاذقيہ کی بندرگاہوں کو نشانہ بنایا جہاں شامی بحریہ کے 15 بحری جہاز لنگر انداز تھے۔
تو ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل شام پر مسلسل حملے کیوں کر رہا ہے؟
اسرائیل شام پر حملے کیوں کر رہا ہے؟
اسرائیلی فوج نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اُس کے جنگی طیاروں نے گذشتہ چند دنوں کے دوران شام کے مختلف علاقوں میں متعدد فوجی اور عسکریت پسندوں کے اہداف پر 350 سے زیادہ فضائی حملے کیے ہیں۔
اس سے قبل شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم ’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ (ایس او ایچ آر) کی جانب سے کہا گیا تھا کے اتوار کے روز باغیوں کی جانب سے دمشق کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے شام پر 310 فضائی حملے کیے ہیں۔
ایس او ایچ آر کے مطابق ان حملوں کا ہدف حلب اور دمشق میں موجود شامی فوج کی تنصیبات تھیں۔ جن علاقوں میں حملے کیے گئے ہیں اُن میں حلب، حماہ، دمشق، لتاکیا، طرطوس اور دیگر علاقے شامل ہیں۔
رامی عبدالرحمٰن ایس او ایچ آر کے بانی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی حملوں کا مقصد شام کی فوج کی لڑنے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ شام کی سرحدی اور فضائی حدود کی مسلسل پامالی کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کے حملوں کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ شام میں موجود کیمیائی ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگیں۔
اسرائیل کے کیمیائی ہتھیاروں کو لے کر خدشات
اسرائیل کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ سابق شامی صدر بشارالاسد کے مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ اب کس کے پاس جائے گا۔
اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں کہ شام میں کہاں اور کتنے کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ سابق صدر نے کیمیائی ہتھیار جمع کیے تھے۔
سوموار کے روز اقوامِ متحدہ کے ہتھیاروں کے ادارے نے شامی حکام کو متنبہ کیا تھا کہ اگر اُن کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں تو انھیں محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔
شام میں اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے سابق انسپکٹر اور سویڈن کی امیا یونیورسٹی میں پروفیسر ایکک سیلسٹورم کا کہنا ہے کہ اسرائیل فضائی حملوں کے ذریعے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت کو نشانہ بنا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسرائیل شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے اثاثے ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سیلسٹورم کے مطابق یہ اثاثے ’لوگ، تنصیبات یا ہتھِیار، کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔‘
بشارالاسد کی فوج نے سنہ 2013 میں دمشق کے مضافاتی علاقے غوطہ میں ایک حملے میں سیرین گیس استعمال کی تھی اور اس حملے میں ایک ہزار سے زائد افراد کے مارے جانے کی اطلاعات تھیں۔
شام کی فوج پر الزام ہے کہ انھوں نے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی سیرین گیس اور کلورین گیس سے بنے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔
ڈاکٹر سیلسٹورم کا کہنا ہے کہ شاید شام پر قبضہ کرنے والے باغیوں کے پاس بھی کیمیائی ہتھیار موجود ہوں کیونکہ اُن پر بھی الزام ہے کہ انھوں نے اپنے مخالفین پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ بشارالاسد نے یہ ہتھیار اس لیے رکھے تھے تاکہ اسرائیل کے ساتھ تنازع میں کسی حد تک طاقت کا توازن کا پیدا ہو سکے لیکن وہ ان ہتھیاروں کو (اسرائیل کے خلاف) استعمال کرنے میں کبھی پہل نہیں کرنے کے خواہاں تھے۔ لیکن اب شام میں ایک بالکل ہی مختلف حکومت ہے۔
ڈاکٹر سیلسٹورم کے خیال میں اسرائیل شام میں موجود تمام مبینہ کیمیائی ہتھیار ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔
اسرائیل گولان کی پہاڑیوں میں کیا کر رہا ہے؟
چند روز قبل اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ اُن کی فوج نے گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی قائم غیر فوجی زون یا بفر زون کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
نتن یاہو کے مطابق یہ پوزیشن عارضی ہے اور اس وقت تک ہے ’جب تک کہ کوئی متبادل انتظام نہیں مل جاتا۔‘
لندن کی ایس او اے ایس یونیورسٹی کے پروفیسر گلبرٹ اچکر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا کہنا ہے وہ اسرائیل پر حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو ہوئے حملے کی طرز کے کسی بھی حملے کو روکنا چاہتے ہیں۔ ’لیکن یہ آگے بڑھنے اور کسی دوسری قوت جو مقبوضہ علاقے کی سرحد کے قریب آنے سے روکنے کا موقع ہے۔‘
اسرائیلی فوج کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں میں قائم غیر فوجی زون پر قبضے کی سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔ سوموار کے روز مصر کی وزارتِ خارجہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو ’شام کی سرزمین پر قبضہ اور 1974 کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔
شام سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج غیر فوجی زون سے کہیں آگے نکل چکی ہے اور دمشق سے محض 25 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ اسرائیلی فوج کے ذرائع اس کی تردید کر رہے ہیں۔
تاہم پہلی دفعہ اسرائیلی فوج نے اس بات کو تسلیم کیا ہے اس کی فورسز گولان کی پہاڑیوں کے بفر زون سے کچھ آگے پہنچ چکی ہیں۔ لیکن فوج کے ترجمان نداو شوشانی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج بہت زیادہ آگے نہیں بڑھی ہے۔
گولان ہائٹس کیا ہے اور اس پر کس کا کنٹرول ہے؟
گولان کی پہاڑیاں شام کا وہ علاقے ہے جس پر اسرائیل نے سنہ 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے۔
گولان کی پہاڑیاں 1200 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ شامی دارالحکومت دمشق سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔
سنہ 1967 کی جنگ کے دوران شام نے گولان کی پہاڑیوں سے اسرائیل پر حملہ کیا تاہم اسرائیل یہ حملہ پسپا کرنے میں کامیاب رہا اور اس حملے کے ردعمل میں اسرائیل نے 1200 کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔
سنہ 1973 کی جنگ کے دوران شام نے اِن پہاڑیوں کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔
بعد ازاں 1974 میں شام اور اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے اور تب سے اقوامِ متحدہ کی نگران فوج وہاں تعینات ہے۔
سنہ 1981 میں اس علاقے کو اسرائیل نے یکطرفہ طور پر اپنا علاقہ قرار دے دیا تھا تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس علاقے میں تقریباً 30 یہودی بستیاں قائم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اب تک یہاں 20 ہزار یہودی آباد کار منتقل ہو چکے ہیں۔
اس علاقے میں تقریباً 20 ہزار شامی شہری بھی رہتے ہیں۔ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحدی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کے ایک جانب لبنان اور دوسری جانب اُردن کی سرحد بھی لگتی ہے۔
کیا اسرائیل کے خدشات درست ہیں؟
اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا ہے اسرائیلی فوج کا گولان کی پہاڑیوں میں قائم بفر زون پر قبضہ عارضی ہے مگر فوج کا انخلا آنے والی شامی حکومت کے رویے پر منحصر ہے۔
نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اُن کی خواہش ہے کہ شام میں آنے والی حکومت کے ساتھ پُرامن اور ہمسایوں والے تعلقات قائم کر سکیں۔
’تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو اسرائیلی ریاست اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔‘
لندن میں قائم تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر ایچ اے ہیلیئر کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ شام کی جانب سے فورسز گولان میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس کا کوئی امکان موجود نہ رہے اسرائیلی فوج سرحد میں مزید اندر تک داخل ہو گئی ہے۔
’تاہم اسرائیل نے پہلے بھی گولان کی پہاڑیوں پر حفاظتی اقدام کے طور پر قبضہ کیا تھا اور پھر بعد میں اپنی پوزیشن کو مضبوط تھا۔ وہ دوبارہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔‘
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے کہا ہے کہ اُن کی فوج شام کے فوجی اڈوں پر فضائی حملے صرف اور صرف اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے کر رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل سٹریٹجک ہتھیاروں کے نظام پر حملہ کرتا ہے جیسے باقی ماندہ کیمیائی ہتھیار یا طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور راکٹ تاکہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔
تاہم پروفیسر اچکار کے خیال میں شام میں بڑے پیمانے پر کیمیائی ہتھیار موجود نہیں ہیں۔ اُن کے مطابق وہ صرف دو یا تین مقامات پر ہیں۔ ’لیکن 300 سے زیادہ فضائی حملے کر کے آپ ملک (شام) کو بہت زیادہ کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں کی نظر بشار الاسد ایک ایسا ’شیطان' تھا جسے وہ جانتے تھے لیکن اسد کے جانے کے بعد کیا ہو گا اس بارے میں کافی غیر یقینی پائی جاتی ہے۔
’اُن کو ڈر ہے کہ لیبیا کی طرح شام بھی مختلف متحارب دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گا اور کوئی ایسا دھڑا برسرِاقتدار نہ آ جائے جو اسرائیل سے دشمنی رکھتا ہو۔‘
اُن کے مطابق ایسے کسی دھڑے کو شامی فوج کے ہتھیاروں کو اپنے خلاف استعمال کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔