جب دلیپ کمار پر ’پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام‘ لگا اور نشانِ امتیاز ملنے پر ہنگامہ برپا ہوا

اس مضمون میں ہم دلیپ کمار کے ساتھ جڑے چند تنازعات کا ذکر کررہے ہیں جو پاکستان کے ساتھ ان کے تعلق اور مسلمان ہونے کی وجہ سے وقتا فوقتا سر ابھارتے رہے تھے۔
پاکستان کے اس وقت کے صدر رفیق تاڑر نے دلیپ کمار کو نشان امتیاز ایوارڈ سے نوازا تھا
Getty Images
پاکستان کے اس وقت کے صدر رفیق تاڑر نے دلیپ کمار کو نشان امتیاز ایوارڈ سے نوازا تھا

’اگر ہم دلیپ کمار کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں تو دنیا میں کون ہماری اس بات پر یقین کرے گا کہ ہم اپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں؟'

یہ انڈیا کے معروف صحافی ویر سنگھوی کے ایک مضمون کا آخری جملہ ہے جو 18 جولائی 1999 کو ’دی ٹیلیگراف‘ میں شائع ہوا تھا۔

دراصل یہ مضمون اس شور شرابے کے بعد تحریر کیا گیا تھا جب بالی وڈ کے معروف اداکار دلیپ کمار کو پاکستان نے اپنا اعلیٰ ترین شہری اعزاز ’نشان امتیاز‘ سے نوازا تھا۔

اُس وقت مہاراشٹر میں شیوسینا کے رہنما بالا صاحب ٹھاکرے نے دلیپ کمار کی جانب سے اس اعزاز کو قبول کرنے پر اعتراض کیا تھا جبکہ مظاہرین کی جانب سے دلیپ کمار کے گھر کے سامنے ہنگامہ برپا کیا گیا تھا۔

اس واقعے کا تذکرہ معروف اداکار رشی کپور نے بھی کیا ہے جو دلیپ کمار کی سوانح ’دلیپ کمار: دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ میں درج ہے۔

رشی کپور نے اپنے والد راج کپور اور دلیپ کمار کی قربت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب یوسف انکل (دلیپ کمار) کو بالاصاحب ٹھاکرے کی جانب سے نشان امتیاز وصول کرنے پر اعتراض کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے بنگلے کے باہر مظاہرے ہوئے اور ہماری صنعت کے ظالمانہ رویے کے تسلسل میں فنکار برادری سے کوئی بھی آگے نہیں آیا تو اس موقع پر یوسف انکل نے ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’میں آج اپنے دوست راج کو بہت یاد کر رہا ہوں، وہ میرے یا کسی دوسرے فنکار کے خلاف اس ایجیٹیشن کو بغیر جواب کے جانے نہیں دیتے تھے۔۔۔‘

’اُس وقت پاپا نہیں رہے تھے (راج کپور دس سال قبل 1988 میں وفات پا چکے تھے) لیکن اس بات نے ہمیں اتنا فخر محسوس کرایا کہ یوسف انکل جیسا کوئی دانشور ہمارے والد کو یاد کر رہا ہے اور انھیں ایک نڈر آدمی ہونے کا کریڈٹ دے رہا ہے جو ایسی کسی آزمائش پر اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔‘

13 جولائی سنہ 1999 کو اس ہوٹل کے باہر مظاہرہ جہاں دلیپ کمار ٹھہرے ہوئے تھے۔ سی پی آئی کے کارکنوں اور شو سینا کے درمیان جھڑپ
Getty Images
13 جولائی 1999 کو اس ہوٹل کے باہر مظاہرہ ہوا تھا جہاں دلیپ کمار ٹھہرے ہوئے تھے

دلیپ کمار سات جولائی2021 کو 98 سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے اور اگر آج وہ زندہ ہوتے تو آج کے دن یعنی11 دسمبر کو اپنا 102واں جنم دن منا رہے ہوتے۔

اس مضمون میں ہم دلیپ کمار کے ساتھ جڑے چند تنازعات کا ذکر کر رہے ہیں جو پاکستان کے ساتھ اُن کے تعلق اور مسلمان ہونے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً سر اٹھاتے رہے۔

مصنف ویر سانگھوی کے مطابق دلیپ کمار کی انڈیا میں مقبولیت ایک طرف لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے انھیں بار بار جس امتحان سے گزرنا پڑا ہے وہ ایک الگ کہانی ہے۔

اس بات کا احساس دلیپ کمار کو بھی تھا جو انڈیا کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ہیرو تھے اور ان کے سماجی اور فلاحی منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی مقبولیت کا بھرپور استعمال کرتے تھے۔

یوسف خان عرف دلیپ کمار

یوسف خان 11 دسمبر 1922 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر پشاور (موجودہ پاکستان) کے محلہ قصہ خوانی میں پیدا ہوئے اور پھر کم عمری میں ہی اپنے والدین کے ساتھ بمبئی چلے آئے۔

اگرچہ تقسیم ہند سے قبل ہی وہ فلم ’جوار بھاٹا‘ کے ذریعے فلمی دنیا میں آ گئے تھے لیکن اس سے قبل انھیں اپنا مسلم نام بدلنا پڑا تھا کیونکہ اس زمانے کی فضا شاید کچھ ایسی تھی جس میں ہندوستان میں مسلم نام کو مبینہ طور پر پزیرائی نہیں مل سکتی تھی۔

اگرچہ یوسف خان کے سامنے سکرین کے لیے کئی ناموں کی تجویز پیش کی گئی لیکن انھوں نے ’دلیپ کمار‘ کو منتخب کیا۔

اگر اس زمانے کی بات کی جائے تو نام بدلنے کا قصہ یوسف خان تک محدود نہ تھا۔ اداکارہ مہ جبین بانو مینا کماری کے نام سے شہرت حاصل کر چکی تھیں، ممتاز جہاں بیگم نے مدھوبالا کے نام سے لوگوں کے دلوں پر راج کیا جبکہ حامد علی خان کا نام اجیت اور قاضی بدرالدین کا نام جانی واکر نظر آتا تھا۔

اگرچہ اشوک کمار، دیو آنند اور گرو دت کے نام بھی بدلے ہوئے ہیں لیکن معروف صحافی اور فلم نقاد ضیا السلام کے مطابق اُس سے اُن کا مذہب بدلتا نظر نہیں آتا ہے یعنی وہ ہندو تھے اور انھوں نے بدلے ہوئے ہندو نام ہی اپنائے۔

بہرحال تقسیم ہند کے بعد فلم انڈسٹری میں یہ مفروضہ گشت کرتا رہا تھا کہ مسلم نام کو شاید وہ پزیرائی نہ ملے جو آج شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان اور سیف علی خان وغیرہ کو حاصل ہے۔

دلیپ کمار کو گرفتاری کا خطرہ

بہر حال دلیپ کمار سے متعلق ایک واقعے کا ذکر صحافی ویر سنگھوی اور ان کی سابق اہلیہ اور صحافی ملاویکا سنگھوی نے بھی کیا ہے کہ کس طرح دلیپ کمار کو ایک واقعے کی وجہ سے گرفتاری کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔

ملاویکا نے دس جولائی2021 کے اپنے ایک مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا: ’ویر سنگھوی (اور میرے سابق شوہر) جن کے والد آنجہانی رمیش سنگھوی بھی دلیپ کمار کے حلقۂ ارباب میں تھے۔ وہ بتاتے ہیں میری بچپن کی پہلی یاد ’گنگا جمنا‘ کی ریلیز سے متعلق ہے، جسے سینسر بورڈ بغیر کاٹ چھانٹ کے ریلیز کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔‘

رمیش سنگھوی چونکہ وکیل تھے اس لیے دلیپ کمار نے اس فلم کے متعلق اُن سے رابطہ کیا اور ویر سنگھوی کے مطابق وہ دونوں اس فلم کو لے کر ہر شام بیٹھتے تھے اور اس پر غور کرتے تھے یہاں تک کہ انھیں اس فلم کے سارے مکالمے یاد ہو گئے تھے۔

ملاویکا لکھتی ہیں کہ حکومت ہند کے ساتھ دلیپ کمار کے معاملے کے بارے میں ویر کی دوسری یاد بہت سنگین ہے۔

بقول ویر سنگھوی: ’مجھے اپنے والد کے چہرے پر صدمے کے تاثرات واضح طور پر یاد ہیں جب دلیپ کمار نے انھیں بتایا کہ ان پر پاکستانی جاسوس ہونے کا الزام لگایا گيا ہے اور شاید وہ گرفتار ہو سکتے ہیں۔ ان دنوں دلیپ کمار انڈیا کے ’عظیم سیکولر‘ فلمی ستارے تھے، جنھیں ان کی وطن پرستی کے لیے جانا جاتا تھا۔ کوئی کیسے سوچ سکتا ہے کہ ایسا آدمی جاسوس ہے؟‘

ملاویکا لکھتی ہیں کہ انھیں بھی یہ واقعہ یاد ہے لیکن جب ہم نے اس کے متعلق معروف صحافی جتن دیسائی سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ انھیں پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز دیے جانے اور بالاصاحب ٹھاکرے کی جانب سے اعتراضات اور اس پر کھڑے ہونے والے تنازعات تو یاد ہیں لیکن یہ واقعہ یاد نہیں، حالانکہ ہم دلیپ کمار کو نہرو کے خوابوں کا انڈیا بنانے والے اداکار کے طور پر جانتے ہیں۔

تاہم انھوں نے کہا کہ دلیپ کمار جیسا بڑا اداکار ذات پات، مذہب و ملت اور جغرافیائی حدود سے اوپر ہوتا ہے اور ان پر اس قسم کے الزامات لگانا بدقسمتی ہے۔

بہر حال ویر سنگھوی کے مطابق انھیں گھر میں ہونے والی سرگوشیاں، غم و غصہ، مایوسی اور جواہر لعل نہرو کو روانہ کیے جانے والے خطوط کا سلسلہ یاد ہے جس میں اس الزام کو دور کرنے کی باتیں کہی گئیں تھی۔ اس کے علاوہ انھیں ’خوبصورت ستارے‘ یعنی دلیپ کمار کے چہرے پر غم کے اثرات بھی یاد ہیں۔

ملاویکا لکھتی ہیں کہ ویر کے سامنے رفتہ رفتہ تھوڑی تھوڑی کہانی سامنے آنے لگی اور پتہ چلا کہ پولیس نے ایک نوجوان کو مبنیہ طور پر پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس کی ایڈریس بک میں انھیں کئی نام ملے، جن میں دلیپ کمار کا نام بھی شامل تھا۔ اس انتہائی خفیف سے اشارے کی بنیاد پر، انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ دلیپ کمار بھی شک کے دائرے میں ہیں اور ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔

دلیپ کمار کے گھر چھاپہ اور افواہوں کا بازار

اگرچہ دلیپ کمار کی سوانح ’دلیپ کمار: دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ یا لارڈ میگھناد ڈیسائی اور برون دیسائی کی دلیپ کمار پر لکھی کتاب ’نہروز ہیرو دلیپ کمار‘ میں بھی اس واقعے کا ذکر نہیں ہے لیکن ویر سنگھوی اپنے مضمون میں واضح طور پر لکھتے ہیں کہ ’ایک دن کلکتہ سے پولیس کی ایک پارٹی بمبئی پہنچی اور دلیپ کمار کے گھر پر چھاپہ مارا۔ پولیس نے کہا کہ وہ ایک پاکستانی جاسوس ہیں اور وہ اسے گرفتار کرنے والے تھے۔ دلیپ کمار جاسوس کیسے ہو سکتے تھے؟ اور ویسے بھی وہ کون سی خفیہ معلومات پاکستانیوں تک پہنچانے کی پوزیشن میں تھے؟'

انھوں نے مزید لکھا: ’معلوم ہوا کہ کلکتہ پولیس نے ایک مشتبہ پاکستانی جاسوس کو گرفتار کیا ہے۔ ان کی ڈائری میں انھیں کئی معروف لوگوں کے نام ملے تھے۔ ہندوستانی پولیس کی بہترین روایات کے مطابق انھوں نے فوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ ڈائری میں درج تمام ہندو نام سورس (رابطے) ہیں۔۔۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’اس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے معاشرے میں تعصب کس قدر سرایت کر چکا ہے۔ انڈیا کا ٹاپ سٹار، نہرو کا دوست جو اس وقت بھی وزیراعظم تھے ان پر جاسوسی کا الزام صرف اس لیے لگایا گیا کہ وہ مسلمان تھا۔‘

وہ پوچھتے ہیں کہ ’اگر دیو آنند کا نام ڈائری میں ہوتا تو اس بات کا بہت کم امکان تھا کہ کوئی ان پر چھاپہ مارنے کی زحمت کرتا۔‘

ویر سنگھوی لکھتے ہیں کہ کئی تکلیف دہ مہینوں کے بعد پولیس نے شواہد نہ ہونے کی وجہ سے ہار مان لی۔ لیکن افواہوں نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کہیں یہ خبر اڑی کہ دلیپ کمار نے اعتراف کر لیا ہے تو کسی نے کہا پولیس نے ان کے گھر کے فرش کے نیچے سے ایک ریڈیو ٹرانسمیٹر برآمد کیا ہے۔ کسی نے انھیں فلم انڈسٹری کے اندر مسلم جاسوسوں کے گروہ کا لیڈر کہا، وغیرہ وغیرہ۔

ویر سنگھوی مزید لکھتے ہیں کہ ’یہ دلیپ کمار کا ہی دل ہے کہ انھوں نے اس طرح کی خوفناک بدسلوکیوں کے باوجود کوئی تلخی نہیں پالی یا بدتمیزی نہیں کی۔ اس کے بجائے وہ ہمیشہ کی طرح 1965 میں پاکستان کے خلاف جنگ میں ہمارے فوجیوں کا ساتھ دینے کے لیے تیار تھے۔‘

اتنا ہی نہیں دلیپ کمار کے بارے میں سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ کارگل کی جنگ رکوانے میں انھوں نے نواز شریف سے دوٹوک بات کی تھی جبکہ دلیپ کمار کی اہلیہ سائرہ بانو نے بتایا کہ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کو درست کرنے کے لیے شاید ضیا الحق کے زمانے میں انھیں سپیشل مشن پر پاکستان بھی روانہ کیا گیا تھا۔

دلیپ کمار ایک بار گرفتار ضرور ہوئے

ادے تارا نایر کے ساتھ لکھی دلیپ کمار کی سوانح ’دلیپ کمار: دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ میں دلیپ کمار اپنی گرفتاری کا ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میں نے انجمن اسلام سکول میں ایک طالب علم کی حیثیت سے برطانوی آئین کا مطالعہ کیا تھا اور اس علم کو ایک ایسی تقریر کی تیاری میں استعمال کیا کہ جس میں محنتی، سچے اور غیر متشدد لوگوں کی قوم کے طور پر ہم نے اپنی برتری کا خاکہ پیش کیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میری تقریر پر خوب تالیاں بجیں اور مجھے خوشی محسوس ہوئی لیکن میری کامیابی کا مزہ وقتی تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس افسران کا ایک گروپ جائے وقوعہ پر پہنچا اور مجھے ہتھکڑیاں لگا کر کہا کہ مجھے میرے برطانوی مخالف خیالات کی وجہ سے گرفتار کیا جاتا ہے۔‘

’مجھے یرواڈا جیل لے جایا گیا اور ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا جس میں کچھ انتہائی مہذب نظر آنے والے لوگ تھے، جن کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ ستیہ گرہی (مہاتما گاندھی کے پیروکار جو عدم تشدد کے ساتھ مزاحمت کر رہے تھے) ہیں۔ میری آمد پر جیلر نے مجھے ’گاندھی والا‘ کہا۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ وہ میرے لیے یہ اصطلاح کیوں استعمال کر رہے ہیں جب تک کہ میں نے پولیس والوں کو سیل کے تمام قیدیوں کو گاندھی والا کہتے ہوئے نہ سُنا۔ یہ گاندھی جی کے پیروکاروں کے طور پر ہمیں بیان کرنے کا ان کا طریقہ تھا۔‘

نشان امتیاز پر تنازع

دلیپ کمار کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کے ایک پُل اور ’امن کے پیامبر‘ کے طور پر دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے لیکن جب حکومت پاکستان نے 1997-1998 میں انھیں نشان امتیاز دینے کا اعلان کیا تو ایک بار پھر اُن پر دباؤ بڑھا اور یہ دباؤ اتنا شدید تھا کہ انھیں اس وقت کے وزیر اعظم اور بی جے پی رہنما اٹل بہاری واجپئی سے مشورہ کرنا پڑا کہ انھیں یہ اعزاز قبول کرنا چاہیے یا نہیں۔

اپنی کتاب میں دلیپ کمار اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’میرا پاکستان کا دوسرا دورہ مارچ 1998 کے نصف آخر میں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان امتیاز حاصل کرنے کے لیے تھا، جسے آرڈر آف ایکسیلنس یا کم و بیش آرڈر آف دی برٹش ایمپائر اور امریکہ کے صدارتی تمغہ برائے آزادی کے برابر کہہ سکتے ہیں۔ اسے تسلیم کرنے پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا جب شیو سینا کے سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے (جو پاکستان مخالف موقف کے لیے مشہور ہیں) نے اعلان کیا کہ مجھے ایوارڈ نہیں لینا چاہیے۔ انھوں نے بالواسطہ طور پر میری دیانت اور حب الوطنی پر شکوک و شبہات ظاہر کیے، جو بلاوجہ تھے اور جس کی وجہ سے مجھے شدید صدمہ پہنچا۔‘

’میں نے اس وقت کے انڈیا کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے مشورہ طلب کیا اور انھوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ مجھے ایوارڈ لینا چاہیے۔ جیسا کہ انھوں نے صراحت کے ساتھ کہا ’آپ ایک فنکار ہیں اور اس طرح آپ کو سیاسی یا جغرافیائی حدود میں باندھا نہیں جا سکتا۔ آپ نے جو انسانی خدمت کی ہے اس کے لیے آپ کو منتخب کیا گیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے آپ کی کوششیں سب کو معلوم ہیں۔ اس کا نہ لینا صرف تعلقات کو مزید خراب کریں گے اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان خراب ماحول پیدا ہو گا۔‘

ویر سنگھوی نے اس واقعے پر لکھا کہ جس دلیپ کمار نے بار بار اپنی وطن پرستی اور اپنی وفاداری ثابت کی انھیں اٹل بہاری واجپئی کے پاس جا کر یہ کہنے میں کتنی تکلیف ہوئی ہو گی کہ ’سر آپ جو کہیں گے وہیں کریں گے۔‘

دلیپ کمار کو انڈیا کا دوسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ سنہ 2015 میں دیا گیا جبکہ ان کے مداح کی جانب سے ان کے لیے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن کا مطالبہ رہا ہے
Getty Images
دلیپ کمار کو انڈیا کا دوسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ 2015 میں دیا گیا جبکہ ان کے مداحوں کی جانب سے ان کے لیے سب سے بڑے اعزاز ’بھارت رتن‘ کا بارہا کیا گیا

بدلے ہوئے حالات

ہم نے فلم نقاد اور ’بینگ مسلم ان ہندو انڈیا‘ کتاب کے مصنف ضیا السلام سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ دلیپ کمار کا یا مینا کماری کا یا مدھو بالا اور اجیت کا ایک ہندو نام اختیار کرنا ہی بتاتا ہے کہ اس وقت انڈیا میں مسلم نام قابل قبول نہیں تھا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ تقسیم تک دہلی کا امپریل سنیما ہال جو ہالی وڈ کی فلمیں دکھاتا تھا اور مسلم معاشرے پر مبنی فلمیں دکھاتا تھا اس نے یکایک ایسی فلمیں دکھانا بند کر دیا اور اس نے پنجابی فلمیں اور ہندو اساطیر پر مبنی فلمیں دکھانا شروع کر دیا اور یہی حال آشرم کے شالیمار سنیما ہال کا تھا۔

ان کے مطابق وہ پاکستان سے آنے والے پنجابیوں اور ہندوؤں سے ہمدردی دکھانے کی خاطر ایسا کر رہے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں تقسم سے قبل مسلمانوں کی جو آبادی 40 فیصد سے زیادہ تھی وہ تقسیم کے بعد انڈیا میں 1951 کی مردم شماری کے مطابق 11 فیصد رہ گئی۔ ایسے میں نہرو نے سنیما کو خلیج کو کم کرنے کے وسیلے کے طور پر دیکھا اور اس زمانے میں ’بیجو باورا‘، ’مغل اعظم‘ اور ’انار کلی‘ جیسی تاریخی فلمیں بنائی گئیں تاکہ سماج میں آنے والی تلخیوں کو کم کیا جا سکے اور دلیپ کمار ان کے ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھنے والوں میں پیش پیش تھے۔

دو ستمبر سنہ 2008 کو دلیپ کمار کو انڈیا کی صدر پرتبھا پاٹل نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا تھا
Getty Images
دو ستمبر سنہ 2008 کو دلیپ کمار کو انڈیا کی صدر پرتبھا پاٹل نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا تھا

سماجی انصاف پر مبنی دلیپ کمار کی فلم ’گنگا جمنا‘ یا پھر مشین اور انسان کے درمیان کشمکش والی فلم ’نیا دور‘ نہرو کے نئے ہندوستان کی تعمیر کے لیے تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ نہ صرف 60 کی دہائی میں دلیپ کمار پر پاکستانی جاسوس ہونے کے الزامات لگے بلکہ 90 کی دہائی میں بھی انھیں پاکستان نواز ہونے کا طعنہ سننا پڑا۔

اس بابت ہم نے پونے میں قائم ڈی وائی پاٹل انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سکول آف میڈیا اینڈ جرنلزم کے ڈائریکٹر پروفیسر اروند داس سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’یہ ستم ظریفی ہے کہ دلیپ کمار جیسے بڑے اداکار کو، جو ہمار قومی افتخار ہیں، انھیں اس طرح کے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ صرف دلیپ کمار تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اگر آپ دیکھیں تو معروف مصور (پینٹر) مقبول فدا حسین کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اورانھیں اپنے ہی وطن میں دو گز زمین تک نہ مل سکی۔ یہی سلوک انڈیا کے معروف کرکٹر اور سابق کپتان محمد اظہرالدین کے ساتھ کیا گيا اور انھیں بھی غدار کہا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ اگرچہ دلیپ کمار کی موت کے بعد ان کا باب بند ہو چکا ہے لیکن یہ انڈیا کے لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اپنی اقلیت کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتی ہے!


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.