حکومت کی جانب سے جب اکتوبر 2024 میں پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی تھی تو اس سے بجلی صارفین کے بلوں میں کوئی قابل ذکر کمی واقع نہیں ہوئی تھی تو کیا اب آٹھ مزید آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے بعد کیا بجلی کے بلوں میں کوئی کمی ہو پائے گی؟
پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں بجلی پیدا کرنے والے مزید آٹھ کارخانوں یعنی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی منظوری دی گئی ہے جس کے بعد ان کمپنیوں سے بجلی کی خریداری کے لیے نئے ٹیرف پر بات ہو گی۔
حکومت کی جانب سے مزید جن آٹھ کارخاںوں سے معاہدوں پر نظرثانی کی منظوری دی گئی، وہ بیگاس یعنی گنے کے پھوک پر چلنے والے کارخانے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سال اکتوبر میں حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے کام آغاز ہوا تھا جب پہلی بار ملک میں آئی پی پیز کے ساتھ بجلی پیدا کرنے اور اُس کی خریداری کے لیے کیے جانے والے معاہدوں کے سلسلے میں پانچ کمپنیوں کے ساتھ پرانے معاہدے ختم کر کے ان پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی تھی۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی اِن کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے اُس وقت سے زیر بحث ہیں جب گزشتہ نگران کابینہ میں وزیرِ تجارت و داخلہ گوہر اعجاز کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک پیغام میں ان معاہدوں پر کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کی جانے والی رقوم پر تنقید کی گئی جو کئی سو ارب روپے بنتی ہے۔
پاکستان میں گذشتہ دو، تین برس میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ کی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کرنے کی شکایات بھی منظر عام پر آئیں۔
کِن آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی ہو گی؟
وفاقی کابینہ کی جانب سے جن آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی منظوری دی گئی، ان میں جے ڈی ڈبلیویونٹ ون اور یونٹ رحیم یار خان ملز، چنیوٹ پاور، حمزہ شوگر، المعیز پاور پلانٹ، تھل انڈسٹریز اور چنار انرجیکے ساتھ ٹیرف کے ازسر نو جائزے کی منظوری دی۔
وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق یہ منظوری ٹاسک فورس برائے انرجی کی سفارشات پر دی گئی۔
وفاقی کابینہ کے مطابق ان معاہدوں پر نظرثانی سے قومی خزانے کو کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 238 ارب کی سالانہ بچت ہو گی اورصارفین کے بجلی کے بلوں میں کمی واقع ہو گی۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2024 حکومت کی جانب سے جن پانچ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ختم ہونے کا اعلان کیا گیا تھا ان میں حبکو پاور کمپنی، لال پیر پاور کمپنی، روش پاور، صبا پاور پلانٹ اور اٹلس پاور پلانٹ شامل تھے۔
وفاقی کابینہ کے نئے فیصلے کے مطابق اب ملک میں ایسے آی پی پیز کی تعداد 13 ہو چکی، جن کے ساتھ حکومت نے بجلی کی خریداری کے لیے از سر نو معاہدے کی منظوری دی۔
آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں متنازع چیز کیا تھی؟
پاکستان میں آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر سیاسی اور کاروباری حلقوں اور میڈیا پر کڑی تنقید کی گئی ہے جس میں ان معاہدوں کو عام افراد اور کاروباری اداروں کے لیے بجلی کی قیمت زیادہ ہونے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔
ان معاہدوں کی تفصیلات کے بارے میں پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں توانائی کے شعبے کی ماہر عافیہ ملک نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان معاہدوں میں حکومت نے ضمانت دی تھی کہ وہ’ ٹیک آر پے‘ کے تحت بجلی کی قیمت ادا کرے گی یعنی کہ حکومت بجلی خریدے نہ خریدے وہ اس کی ادائیگی کرنے کی پابند ہو گی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’کیونکہ ان پاور پلانٹس کے لیے بیرونی و اندرونی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضہ لیا جاتا ہے اس لیے کمپنیوں کو اس قرضے کی ادائیگی کے لیے حکومت کی ضمانت درکار ہوتی ہے تاکہ یہ کمپنیاں حکومت کی جانب سے بجلی خریدنے یا نہ خریدنے دونوں صورتوں میں بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی کر سکیں۔‘
حکومتی ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابقملک میں اس وقت 101 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں جن میں فرنس آئل پر چلنے والے کارخانوں کی تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد 19، پانی سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد پانچ اور بیگاس پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد آٹھ ہے جبکہ سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے۔
عافیہ ملک نے بتایا کہ ’ان آئی پی پیز میں حکومتی آئی پی پیز بھی شامل ہیں جن میں پانی اور نیوکلئیر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی شامل ہیں۔‘
آئی پی پیز کے ساتھ از سر نو معاہدوں پر عملدرآمد کیسے ہو گا؟
عافیہ ملک نے بتایا کہ اکتوبر میں ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد ہو چکا اور جن پانچ کمپنیوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا وہ اب ’ٹیک یا پے‘ ٹیرف سے ’ٹیک اور پے‘ ٹیرف پر آچکی ہیں یعنی اب حکومت جو بجلی خریدے گی اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
انھوں نے بتایا کہ ان پانچ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر عملدرآمد ہو چکا جبکہ ان کی جانب سے سٹاک مارکیٹ میں اپنے شیئر ہولڈرز کو بھی اس بارے میں مطلع کر دیا گیا۔
انھوں نے کہا ویسے تو کچھ دوسری کمپنیوں کے ساتھ بھی مذاکرات ہو رہے ہیں تاہم ابھی تک صرف 13 کے ساتھ یہ معاہدے ہوئے ہیں جن میں اکتوبر کے مہینے میں ہونے والے پانچ معاہدے تھے اور اب دسمبر کے مہینے میں تازہ ترین پیشرفت میں بیگاس پر چلنے والے آٹھ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے شامل ہیں۔
شعبہ توانائی کے تجزیہ کار سمیع اللہ طارق نے اس حوالے سے بتایا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اب ان معاہدوں کو نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی کو بھیجا جائے گا جو ان کے لیے نئے بجلی کے ٹیرف بنائے گا اور اس کی منظوری سے ان کمپنیوں کے لیے نئے پاور ٹیرف کا اطلاق ہو جائے گا۔
کیا نئے معاہدوں سے بجلی کے بلوں میں کمی ہو گی؟
حکومت کی جانب سے جب اکتوبر 2024 میں پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی تھی تو اس سے بجلی صارفین کے بلوں میں کوئی قابل ذکر کمی واقع نہیں ہوئی تھی کیونکہ ان معاہدوں پر نظرثانی کے بعد بجلی کے بل میں صرف ستر پیسے فی یونٹ کمی کا تخمینہ سامنے آیا تھا۔
اب آٹھ مزید آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کے بعد کیا صارفین کے بجلی بل میں کوئی کمی ہو پائے گی؟
اس بارے میں توانائی کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے بیگاس پر چلنے والے آئی پی پیز کا بجلی کی پیداوار میں معمولی حصہ ہے اس لیے ان معاہدوں سے بجلی کے بل میں نہ ہونے کے برابر کمی واقع ہو گی۔
بیگاس پر چلنے والے جن آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی ہے ان کی سرکاری ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کے مطابق مجموعی پیداواری صلاحیت صرف 259 میگاواٹ ہے جو پاکستان کی مجموعی بجلی کی پیداواری صلاحیت جو 42000 میگاواٹ ہے جس میں سے صرف 25000 میگاواٹ پیدا کی جاتی ہے اس میں بہت کم ہے
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ میں توانائی شعبے کی ماہر عافیہ ملک نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی سے بجلی کے بلوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی کیونکہ بیگاس سے چلنے والے ان کارخانوں پر بجلی کی مجموعی پیداوار میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
انھوں نے کہا کہ اکتوبر میں پانچ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں اور اب آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے بعد اگر مجموعی کمی لی جائے تو وہ صرف ایک روپیہ فی یونٹ کے قریب ہے۔
کیپسٹی پیمنٹ کا مسئلہ کیا ہے؟
کپیسِٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے کورآرڈینیٹر رانا احسان افضل کے مطابق ’جب معاہدے ہوئے تھے تو ان پلانٹس نے جو رقم خرچ کی تو اس کی واپس ادائیگی کے ’ٹیک یا پے‘ کے معاہدے کیے گئے تھے کہ بجلی کی خریداری یا نہ خریدنے کی صورت میں ادائیگی کرنی ہو گی جو کیپسٹی پیمنٹ ہوتی ہے تاہم اب معاہدوں کے خاتمے کے بعد ’ٹیک اور پے‘ یعنی ’بجلی خریدو اور ادائیگی کرو‘ والی صورتحال ہو گی۔
حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے بعد آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے خاتمے کی پیشرفت اور ان کے خاتمے کی وجوہات کے بارے میں عافیہ ملک نے بتایا سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز کی جانب سے اس مسئلے کو ایکس پر لانے کے بعد اس پر بہت زیادہ شور مچ گیا تھا اور حکومت بھی دباو کا شکار ہوئی۔
انھوں نے حکومت نے اس تنقید کو کم کرنے کے لیے فیس سیونگ کے لیے یہ اقدام اٹھایا تاہم انھوں نے کہا اس سے حکومت اور صارفین کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔