Latest 30 poetries by featured poets
زندگی اتنی بھی تنگ آئی نہ تھی زندگی اتنی بھی تنگ آئی نہ تھی
جان لیوا بھی یہ تنہائی نہ تھی
دل کبھی ایسے لہو رویا نہ تھا
اپنی حالت پر ہنسی آئی نہ تھی
کوبہ کو ،قریہ قریہ شہر شہر
اس قدر بھی اپنی رسوائی نہ تھی
نوک ِ مژگاں پر ٹھہر جاتے تھے اشک
قہقہوں میں بھی توانائی نہ تھی
وقت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں لوگ
آتی جاتی سانس ہی پائی نہ تھی
اب تو جینے کی ہوس باقی نہیں
شہر میں کل تک یہ مہنگائی نہ تھی
آج کل وشمہ کسی کے دل کا حال
آئینہ بن کر ہی دیکھا ئی نہ تھی وشمہ خان وشمہ
جان لیوا بھی یہ تنہائی نہ تھی
دل کبھی ایسے لہو رویا نہ تھا
اپنی حالت پر ہنسی آئی نہ تھی
کوبہ کو ،قریہ قریہ شہر شہر
اس قدر بھی اپنی رسوائی نہ تھی
نوک ِ مژگاں پر ٹھہر جاتے تھے اشک
قہقہوں میں بھی توانائی نہ تھی
وقت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں لوگ
آتی جاتی سانس ہی پائی نہ تھی
اب تو جینے کی ہوس باقی نہیں
شہر میں کل تک یہ مہنگائی نہ تھی
آج کل وشمہ کسی کے دل کا حال
آئینہ بن کر ہی دیکھا ئی نہ تھی وشمہ خان وشمہ
یہ جو آنکھوں کی اس زباں میں ہم یہ جو آنکھوں کی اس زبا ں میں ہم
جانے کیا کیا ترے گماں میں ہم
اک کمی ہے تو تیری خوشبو کی
اور سب کچھ مرے مکاں میں ہم
ویسے اڑتی ہوں آسمانوں پر
جسم میرا تو خاکداں میں ہم
میں بھی تیار ہوں بچھڑنے کو
وہ پرندہ بھی اب اڑ اں میں ہم
شب کی مٹھی ہیں ہے اگر جگنو
وشمہ روشن وہ میری جاں میں ہم وشمہ خان وشمہ
جانے کیا کیا ترے گماں میں ہم
اک کمی ہے تو تیری خوشبو کی
اور سب کچھ مرے مکاں میں ہم
ویسے اڑتی ہوں آسمانوں پر
جسم میرا تو خاکداں میں ہم
میں بھی تیار ہوں بچھڑنے کو
وہ پرندہ بھی اب اڑ اں میں ہم
شب کی مٹھی ہیں ہے اگر جگنو
وشمہ روشن وہ میری جاں میں ہم وشمہ خان وشمہ
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
وشمہ خان وشمہ
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
وشمہ خان وشمہ
ہے یہی خامی مرے محمان ہے ہے یہی خامی مرے محمان ہے
پیچ و خم رکھتی ہوں میں انسان ہے
نقش میرے نقش ہیں ہر لفظ بیچ
میری صورت ہے مری پہچان ہے
جگمگاتی ہے کرن امید کی
اک دیا ہے میرے ہی سامان ہے
اگلی پچھلی ساعتوں کا ذکر کیا
پھر پلٹ کر نہ آئیں دلَ نادان ہے
زندگی بھر ہم تہی دامن رہے
اک خوشی آئی ہے اب امکان ہے
ہوچکی وشمہ بہت اب ہو
بات کیجئے کام کی احسان ہے وشمہ خان وشمہ
پیچ و خم رکھتی ہوں میں انسان ہے
نقش میرے نقش ہیں ہر لفظ بیچ
میری صورت ہے مری پہچان ہے
جگمگاتی ہے کرن امید کی
اک دیا ہے میرے ہی سامان ہے
اگلی پچھلی ساعتوں کا ذکر کیا
پھر پلٹ کر نہ آئیں دلَ نادان ہے
زندگی بھر ہم تہی دامن رہے
اک خوشی آئی ہے اب امکان ہے
ہوچکی وشمہ بہت اب ہو
بات کیجئے کام کی احسان ہے وشمہ خان وشمہ
آج کا انساں بڑی عجلت میں ہے زندگانی اب کہاں فرصت میں ہے
آج کا انساں بڑی عجلت میں ہے
کیسے آئی پتھروں کے شہر میں
دل کا آئینہ بڑی حسرت میں ہے
بخش دے مجھ کو بھی عزت بخش دے
اے خدا سب کچھ تیری قدررت میں
میں تو سچا ہوکے بھی گمنام ہوں
اور وہ جھوٹا بڑی شہرت میں ہے
اچھا دیکھا آپ کو اے جان ِ جاں
دل ہمارا اب بری حالت میں ہے
اٹھ ذرا بیدار ہو اب تو وشمہ
تو نہ جانے کون سی غفلت میں ہے وشمہ خان وشمہ
آج کا انساں بڑی عجلت میں ہے
کیسے آئی پتھروں کے شہر میں
دل کا آئینہ بڑی حسرت میں ہے
بخش دے مجھ کو بھی عزت بخش دے
اے خدا سب کچھ تیری قدررت میں
میں تو سچا ہوکے بھی گمنام ہوں
اور وہ جھوٹا بڑی شہرت میں ہے
اچھا دیکھا آپ کو اے جان ِ جاں
دل ہمارا اب بری حالت میں ہے
اٹھ ذرا بیدار ہو اب تو وشمہ
تو نہ جانے کون سی غفلت میں ہے وشمہ خان وشمہ
غصہ دکھا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے غصہ دکھا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
الفت چھپا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
ہم تو سنا رہے ہیں حال اپنی زندگی کا
تم مسکرا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
میں پھول دے رہی ہوں جان بہار اور تم
پتھر اٹھا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
ملنے کو تم سے آئی میں گاؤں میں تمہارے
تم شہر جا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
اچھی یہ دل لگی ہے اے جان دل چرا کر
نظریں چرا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
کیوں اے وشمہ جھوٹی باتیں بنا بنا کر
افواہ اڑا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے وشمہ خانو شمہ
الفت چھپا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
ہم تو سنا رہے ہیں حال اپنی زندگی کا
تم مسکرا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
میں پھول دے رہی ہوں جان بہار اور تم
پتھر اٹھا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
ملنے کو تم سے آئی میں گاؤں میں تمہارے
تم شہر جا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
اچھی یہ دل لگی ہے اے جان دل چرا کر
نظریں چرا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
کیوں اے وشمہ جھوٹی باتیں بنا بنا کر
افواہ اڑا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے وشمہ خانو شمہ
دعاؤں کو میرے رسائی ملی دعاؤں کو میرے رسائی ملی
دردِ مصطفے کی گدائی ملی
جو پڑھتے ہیں نعتِ شہِ دین کی
مجھے دولت خوش نوائی ملی
وہ دونوں جہاں میں ہوا کامراں
جنھیں آپ کی آشنائی ملی
نبی کا جو گستاخ ہے دہر میں
اسے ہر جگہ جگ ہنسائی ملی
جسے مل گئ الفت شاہ دیں
اسے گویا ساری خدائی ملی
غلامی کی جس کو سند مل گئی
اسے وشمہ پارسائی ملی وشمہ خان وشمہ
دردِ مصطفے کی گدائی ملی
جو پڑھتے ہیں نعتِ شہِ دین کی
مجھے دولت خوش نوائی ملی
وہ دونوں جہاں میں ہوا کامراں
جنھیں آپ کی آشنائی ملی
نبی کا جو گستاخ ہے دہر میں
اسے ہر جگہ جگ ہنسائی ملی
جسے مل گئ الفت شاہ دیں
اسے گویا ساری خدائی ملی
غلامی کی جس کو سند مل گئی
اسے وشمہ پارسائی ملی وشمہ خان وشمہ