بیٹیوں کو دُنیا میں لانے سے پہلے ہی ختم کر دو کیونکہ ۔۔ 25 سال قبل تین بیٹیوں کو ایک ساتھ پیدا کرنے والی ماں آج ان پر فخر محسوس کرتی ہے، جانیے ان کی کہانی

image

بیٹی کی ماں ہونا بر صغیر پاک و ہند میں ہمیشہ سے بہت اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ اس کا سبب یہ خیال ہوتا ہے کہ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس کا جہیز جمع کرنا پڑے گا اور اس کے بعد اس کو ساری زندگی ایک بوجھ کی طرح پالنے کے بعد عمر بھر کی پونجی جہیز کی صورت میں دینی پڑے گی اور اس کے بعد بھی اس کے سسرال والوں کے سامنے ہمیشہ نظر جھکی ہی رہے گی-

ایسے معاشرے میں اگر کسی عورت کو یہ خبر ملے کہ وہ امید سے ہے اور اس کی کوکھ میں ایک دو نہیں بلکہ تین جڑواں بیٹیاں ہیں اور اس کا شوہر عادی شرابی اور جواری ہو تو اس کے بعد ہر کوئی ایسی عورت کو یہی مشورہ دیتا ہے کہ ان بچیوں کو دنیا میں لانے کے بجائے ابارشن کروا کر جان چھڑوا لو ورنہ ان بچیوں کا مستقبل کیا ہوگا-

ایسا ہی کچھ بھارت کے علاقے راجھستان کی رہنے والی جسپیر کور کے ساتھ ہوا جس کی شادی 1995 میں ہوئی۔ شادی کے بعد جلد ہی اس کو یہ پتہ چل گیا کہ اس کا شوہر نشے کی عادت میں اس حد تک مبتلا ہے کہ اس کے لیے وہ کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ روزمرہ کی مار پیٹ اس کا شیوہ تھی۔ اسی دوران جسپیر امید سے ہو گئی-

26 سالہ جسپیر کو محسوس ہوا کہ اس کا حمل عام عورتوں کی طرح نہیں ہے کچھ ہے جو اس کو دوسروں سے مختلف کر رہا ہے کیوں کہ صرف تین مہینوں میں ہی ان کا جسم بہت پھیل گیا۔ اور جب انہوں نے ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا تو ان پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کی کوکھ میں ایک نہیں بلکہ تین بچے پل رہے ہیں-

ان حالات میں ان کے شوہر نے ان کو کسی بھی طرح سپورٹ نہیں کیا بلکہ ظلم و ستم کا نشانہ بناتا رہا ایسے وقت میں جسپیر کے ساتھ ان کی بہن نے دیا- اسی بہن کی وجہ سے ہی جسپیر کو الٹرا ساؤنڈ کے نتیجے میں یہ علم ہوا کہ ان کی کوکھ میں پلنے والے تینوں بچے لڑکیاں ہیں-

اس وقت میں ڈاکٹر نے جسپیر کو یہ مشورہ دیا کہ ان بچیوں کو دنیا میں لاکر مشکلات میں اضافے کے بجائے یہ بہتر ہے کہ ابارشن کروا لیا جائے تاکہ جسپیر کی زندگی آسان ہو سکے۔ جسپیر کا یہ کہنا تھا کہ ڈاکٹر جو کہ خود بھی ایک عورت تھی اس کے منہ سے ایسا مشورہ سن کر انہیں بہت دکھ ہوا اور انہوں نے سوچا کہ تین زندگیوں کو قتل کرنے کا گناہ وہ کیسے کر سکتی ہیں-

جسپیر جو کہ پیشے کے اعتبار سے خود بھی ایک مڈوائف تھیں ان کے لیے یہ بات بہت اذیت ناک تھی کہ اس طرح جیتے جاگتے بچوں کو ختم کر دیں ان کے شوہر کے خاندان میں گزشتہ تین نسلوں میں کوئی بیٹی پیدا نہیں ہوئی تھی اور ان کے لیے یہ بات ناقابل قبول تھی کہ جسپیر ایک ساتھ تین بیٹیوں کو پیدا کرے گی ۔ اس کے شوہر نے اس کو کہا کہ اگر وہ ان بیٹیوں کو پیدا کرے گی تو اس کا جسپیر اور ان لڑکیوں سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا-

جسپیر کی ماں بھائی اور بھابھی نے اس کو یقین دلایا کہ وہ اس کا ساتھ دیں گے ان کی سپورٹ پر جسپیر نے شوہر سے علیحدگی اور بچیوں کو دنیا میں لانے کا فیصلہ کر لیا- اس کے ساتھ اس نے دعا کی کہ اللہ تعالی ان تینوں بچیوں کو صحت سے نوازے کیوں کہ وہ ان کی بیماری کے اخراجات ادا کرنے کے قابل نہ تھی-

3 دسمبر 1996 کو جسپیر نے تین جڑواں بیٹیوں کو جنم دیا جن کے نام اس نے سندیپ ، مندیپ اور پردیپ رکھے اس کے بعد ایک سخت محنت والی زندگی کا آغاز ہو گیا- بطور نرس جسپیر کی آمدنی بہت قلیل تھی مگر اس کے باوجود اس نے اپنی بچیوں کی تعلیم میں کوئی کمی نہ چھوڑی-

مہنگے اور بڑے اسکولوں میں پڑھانے کی طاقت نہ رکھنے کے باوجود اس نے ان بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا سندیپ نے بیوٹی پارلر کا کورس کیا جب کہ پردیپ نے ہوٹل مینجمنٹ کا کورس کر لیا ہے جب کہ مندیپ اپنی ماں کی طرح نرس بن گئی-

چوبیس سال کی عمر میں تینوں بہنیں اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہیں اور کسی کے لیے بوجھ نہیں آج اپنی بیٹیوں پر فخر کے ساتھ ساتھ جسپیر کو اپنے اس فیصلے پر بھی فخر ہے جو انہوں نے آج سے چوبیس سال قبل ان بچیوں کو دنیا میں لا کر کیا تھا- اب جسپیر ریٹائرہو گئی ہیں مگر معاشرے میں ان کی ایک عزت اور مقام ہے اور انہیں فخر ہے کہ وہ ایک دو نہیں بلکہ تین بیٹیوں کی ماں ہیں-

You May Also Like :
مزید