جتنی تیزی سے وقت نہیں گرزا اس سے کئی زیادہ تیزی سے مہنگائی بڑھی ہے، اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو سموسہ 5 روپے کا ملتا تھا آج وہ 35، 40 روپے کا ہوگیا ہے۔ اور اس قاتل مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر ان لوگوں پر ہورہا ہے جن کے بچے اسکول جاتے ہیں۔
اسکول جانے والے بچوں کے خرچے ہمیشہ سے ہی والدین کیلیئے ایک آزمائش رہے ہیں کیونکہ اسکول کی فیس کے علاوہ آئے دن کے فنکشز، پارٹیز اور کھیلوں کے پروگرامز وغیرہ میں اتنے پیسے خرچ ہوجاتے ہیں اوپر سے آج کل خواتین میں بچوں کو ٹیوشن بھیجنے کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
یہاں ہم بچوں کو ٹیوشن بھیجنے کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ٹیوشن بھیج کر اپنی ذمہ داری پوری کرنے والی ماؤں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ جنہیں لگتا ہے کہ بس بچے کو ٹیوشن لگوادو وہ خود ہی پڑھ لکھ جائے گا، اور پھر جب اسے بچے کے نمبر کم آجائیں تو مائیں فوراً ٹیوشن والیوں کے گھر پہنچ جاتی ہیں شکایت لے کر۔ اور ان کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ اتنی دیر ٹیوشن میں بیٹھنے کے باوجود بچے کے نمبر کم کیسے آئے؟
ان تمام باتوں کے بیچ وہ یہ اہم بات جاننا ہی بھول جاتی ہیں کہ اتنی دیر ٹیوشن میں بیٹھ کر بچہ کرتا کیا ہے؟ اسکا دھیان پڑھائی میں ہے بھی یا نہیں؟ ٹیوشن والی صحیح پڑھا بھی رہی ہے یا نہیں؟ یہ وہ اہم باتیں ہیں جو ماؤں کو جاننی ضروری ہے۔
اسکے علاوہ ایک اور کام جو ماؤں کو کرنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ بچے کو ٹیوشن والی کے بھروسے چھوڑنے کے بجائے ان پر خود بھی توجہ دیں، انکا کام چیک کریں ان سے اسکول اور پڑھائی کے متعلق سوال کریں جس سے معلوم ہوگا کہ بچہ کتنا زیادہ ایکٹو ہے پڑھنے میں۔ اور زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو خود گھر پر پڑھایا جائے اپنی نگرانی میں، ایسا کرنے سے ان کی ٹیوشن فیس بھی بچے گی اور آپ بہتر طریقے سے اپنے بچے کو قابل بھی بنا سکیں گی۔
اسکے لیئے ضروری ہے کہ اپنے بچے کو وقت دیں، اسکے اسکول کی کتابیں اور کاپیاں چیک کریں کہ اسکول میں کیا کارکردگی ہے بچے کی، پھر اسے سمجھا سمجھا کر ہوم ورک کروائیں تا کہ بچہ صرف رٹا مارنا نہ سیکھے بلکہ سمجھ کر پڑھے اس سے اس کی بنیاد اچھی بنے گی۔ چھوٹے بچوں کو پیار محبت سے پڑھائیں، اگر آپ اسے ماریں پیٹیں گے تو وہ اپنی بات آپ کے سامنے کھل کر نہیں رکھ پائے گا جس سے اس کا نظریہ صاف نہیں ہوگا اور وہ کنفیوز رہے گا۔ یہ کچھ ٹپس ہیں جو آپ کی اصلاح کیلیئے بتائی گئی ہیں۔