جیسا کہ حالیہ دنوں میں کم عمر لڑکیوں کے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے کیس کے حوالے سے مختلف پہلو سامنے آتے جا رہے ہیں جو کہ معاشرے کے لیے ایسے سوال اٹھاتے جا رہے ہیں جنہوں نے سب کی عقلوں کو گھما کر کر رکھ دیا ہے ایسے ہی کچھ پہلوؤں سے پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کچھ معاملات پر سوال اٹھاۓ ہیں جس کے جواب کسی کے پاس نہیں ہیں
نکاح کی عمر کی حد
شریعت کے مطابق جیسے ہی لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچتی ہے یا اس کو پہلی ماہواری آتی ہے تو وہ شادی کے قابل ہو جاتی ہے اس کے لیۓ ماہ سال کی شرط نہیں ہے مگر اس کے بر خلاف پاکستانی آئین کے مطابق شادی کے لیۓ عمر کی حد 18 سال ہے تاہم پنجاب میں نکاح کی حد 16 سال تک ہے اس سے کم عمر میں نکاح جائز قرار نہیں دیا جاتا ہے
نکاح میں ولی کی شرط
اسلامی قانون کے مطابق کسی بھی لڑکی کے نکاح کے لیۓ اس کے ولی کا ہونا ضروری ہوتا ہے یہاں ولی سے مراد لڑکی کے باپ بھائي وغیرہ کا ہونا ضروری ہے جب کہ آئيں پاکستان کے مطابق اگر لڑکی گواہوں کے سامنے بھی ایجاب و قبول کر لے تو اس کا نکاح جائز سمجھا جاۓ گا
شریعت اور آئين میں تصادم کے اثرات
اس حوالے سے انسانی حقوق کی صوبائی وزیر شہلا رضا نے ایک ٹی وی شو میں اس حوالے سے سامنے آنے والے مسائل سے پردہ اٹھاتے ہوۓ بتایا کہ اس وقت بھی دارالامان میں کچھ ایسی لڑکیاں بھی موجود ہیں جن کے نکاح کو عدالت کی جانب سے کم عمری کے معطل کر دیا ہے اور ان لڑکیوں کو اٹھارہ سال تک کا ہونے تک دارالامان میں بھجوادیا ہے
اسی دوران ان عورتوں یا لڑکیوں کے بچے بھی پیدا ہوۓ ہیں جن کی پرورش بھی اسی دارالامان میں ہو رہی ہے
کم عمری کے کیۓ جانے والے نکاح سے پیدا ہونے والے بچے کی قانونی پوزیشن
اس حوالے سے شہلا رضا کا مذید بھی کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس پر فوری قانون سازی کی ضرورت ہے اور قانون میں اس معاملے میں موجود خلا کو دور کرنا ضروری ہے
کیوں کہ قانونی طور پر نکاح کے معطل ہو جانے کے بعد ان بچوں کی قانونی پوزیشن ایک سوالیہ نشان ہے جس کے حوالے سے فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ اس بچے کے پیدائش کے سرٹیفیکیٹ پر باپ کا نام لکھوانے کے لیۓ نکاح نامے کا ہونا ضروری ہے جو کہ لڑکی کی کم عمری کی وجہ سے معطل ہو چکا ہے
دعا زہرا کے معاملے میں احتیاط
اسی حوالے سے شہلا رضا صاحبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ دعا زہرا کیس میں بھی جب عمر کا سوال اٹھایا گیا تھا تو قانونی ماہرین کو فوری طور پر اس بچی کو اس کے شوہر سے الگ کر دینا چاہیۓ تھا تاکہ پہلے اس کی عمر کا فیصلہ ہو سکے
مگر انہوں نے اس معاملے میں تاخیر سے کام لیا اگر ایسے حالات میں دعا کے ساتھ بھی ایسی صورتحال ہو گئي تو یہ مذید مسائل کا باعث بھی بن سکتی ہے
شہلا رضا نے معاشرے کو اس حوالے سے متنبہ بھی کیا ہے کہ اپنے بچوں کا بہت خیال رکھیں کیوں کہ آج کل کے دور میں ان مسائل کے سبب آنے والے وقت میں جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان کا حل نکالنا اور ان سوالات کے جواب ڈھونڈنا بہت ضروری ہو گیا ہے