اولاد میں ماں باپ کی جان بستی ہے انکی زرا سی تکلیف ان سے برداشت نہیں ہوتی، تو سوچیں جس ماں کی 3 سال کی بچی خون کی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو اسکی کیا حالت ہوگی۔۔۔
ہومن آف بمبئی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی یہ کہانی آپکو بچی کی ماں کی ہی زبانی سناتے ہیں؛
میں آج ہسپتال میں اپنی 3 سالہ بیٹی نِکھیلا کے ساتھ ہوں اور نرس اسے لگانے کیلیئے انجکشن تیار کر رہی ہے جبکہ نکھیلا مجھے مضبوطی سے گلے لگائے کہتی ہے، ممی! مجھے یہ پسند نہیں ہے۔ اسکی یہ بات مجھے تکلیف پہنچاتی ہے لیکن میں بے بس ہوں، کیونکہ وہ ان خون کے انجیکشنز کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ پچھلے 3 سالوں سے یہ ایک دل دہلا دینے والا معمول ہے۔
نکھیلا، اپنی زندگی کے ابتدائی چند مہینوں میں بالکل دوسرے بچوں کی طرح نارمل تھی۔ میرا 7 سالہ بیٹا لکشودیپ اپنی چھوٹی بہن کے پیدا ہونے پر بہت خوش تھا، جبکہ میں اور میرے شوہر سری کانتھ اپنے خاندان کو مکمل دیکھ کر اس سے بھی زیادہ خوش تھے۔ اگرچہ ہم نظام آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک فارم پر یومیہ اُجرت والے مزدور تھے، لیکن ہمیں امید تھی کہ ہم اپنے بچوں کو ایک اچھی زندگی دے سکیں گے۔
لیکن جب نکھیلا کی عمر صرف 5 ماہ تھی، وہ بیمار ہو گئی۔ جب جب وہ روتی تو لگتا جیسے اسکا چھوٹا سا دل باہر آرہا ہو اور چند ہی دنوں میں اس کی جلد سفید ہونے لگی۔ میں بہت خوفزدہ ہوگئی، یہ دیکھ کر سری کانتھ اسے ہسپتال لے گیا کیونکہ مجھے کام پر جانا تھا، ہم میں سے صرف ایک ہی کام کی چھٹی لینے کا متحمل ہو سکتا تھا۔
اس پورے دن، مجھے یہ احساس ہوا کہ نکھیلا کے ساتھ واقعی کچھ غلط ہے اور جب وہ دونوں گھر واپس آئے تو، میرے بدترین خوف کی تصدیق ہوگئی۔ میں اس خوف کو اپنے شوہر کی آنکھوں میں دیکھ سکتی تھی، اس کے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے اس نے کہا، "نکھیلا کو تھیلیسیمیا ہے اور اس کی زندگی خطرے میں ہے"
یہ سن کر میرا دل ڈوب گیا، لیکن اپنے شوہر کو اس طرح دیکھ کر میں نے ہمت کی کیونکہ میں جانتی تھی کہ مجھے ہم دونوں کے لیے مضبوط ہونا پڑے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ "مت رو، ہم اسے کچھ نہیں ہونے دیں گے"۔
اگلے دن، ہم اسے حیدرآباد کے ایک ہسپتال لے گئے۔ وہاں، ڈاکٹروں نے کہا، اسے ہر 30 دن بعد خون کی ضرورت ہوگی۔ بس اس دن کے بعد، یہ پچھلے 3 سالوں سے ہماری زندگی رہی ہے۔
لیکن آپ جانتے ہیں، وہ اِس حالت کے باوجود زندگی سے بھرپور بچی ہے۔ ہر روز جب ہم کام سے واپس آتے ہیں، تو وہ سب سے پہلے ہمارا استقبال کرتی ہے اور اپنے بھائی کو اپنی انگلیوں پر رکھتی ہے۔ لیکن، جب خون کی منتقلی کا وقت قریب آتا ہے تو یہ ساری توانائی ختم ہو جاتی ہے۔
ان لمحات میں ہے مجھے لگتا ہے کہ شاید ہم اس کی صحیح دیکھ بھال نہیں کر رہے، پر ہم اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے زیورات اور قیمتی اشیاء بیچ دی، قرضے لے لیے، اور کھیت میں اضافی گھنٹے کام بھی کرتے ہیں۔
ان تمام کوششوں کے دوران ڈاکٹروں نے ہمیں ایک اور بری خبر سنائی ہے۔ انھوں نے کہا، "نکھیلا کی حالت بگڑ گئی ہے، اسے بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے"۔ ٹرانسپلانٹیشن کی قیمت 28 لاکھ ہے، اور ابھی ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ سوچ کر میرا دل ٹوٹ جاتا ہے، مجھے اپنے بیٹے سے جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے جب وہ مجھ سے مسلسل پوچھتا ہے کہ میں نکھیلا کو کھیلنے کے لیے باہر کیوں نہیں لے جا سکتا؟ میں بھاری دل کے ساتھ کہتی ہوں، "بس کچھ دن اور بیٹا پھر لے جانا"۔ میں چاہتی ہوں کہ میرا یہ جھوٹ سچ بن جائے اور میری بیٹی ٹھیک ہوجائے، اور اسے وہ زندگی ملے جس کی وہ حقدار ہے۔
3 سالہ نکھیلا تھیلیسیمیا میں مبتلا ہے اور اسے بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے جس کیلیئے اسکے والدین فنڈز کا انتظام کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔