اولاد وہ نعمت ہے جو میاں بیوی کو والدین کا درجہ دلواتی ہے، اور ان سے محنت ایک عام بات ہے جو دنیا کے ہر ماں باپ کرتے ہیں۔ لیکن اگر ایک بچہ آپ سے ہمیشہ کیلیئے دور چلا جائے اور دوسرا بھی اسی راہ پر گامزن ہو تو؟ سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ پر جس پر بیت رہی ہے اسکا کیا کہنا ہے اس پر، آئیے بتاتے ہیں آپ کو ایک ماں کی دکھی داستاں
جب محمد کی جلد زرد پڑنے لگی تو مجھے اپنے پہلے بیٹے اعجاز کی یاد آئی۔ اعجاز ایک خوش اور پرجوش بچہ تھا جب وہ میرے پاس دوڑتا ہوا آتا اور میں اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتی تو وہ ایسی خوشی تھی جیسی کوئی اور نہیں تھی۔ لیکن جب ہم نے اسے 6 سال کی عمر میں جگر کی بیماری میں کھو دیا تو یہ سب ختم ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ میں اس غم سے کبھی اُبھر نہیں ہو سکوں گی جو اس کے جانے سے ہوا تھا۔
8 طویل سالوں میں، ہم نے اپنی زندگی میں بہت خالی پن محسوس کیا۔ پھر، محمد پیدا ہوا، اور یہ ایک نئے اور خوبصورت باب کی طرح محسوس ہوا۔
لیکن بدقسمتی سے، وہ صرف 3 دن کا تھا جب ہمیں پتہ چلا کہ اسے بھی اپنے بھائی کی طرح جگر کی بیماری ہے۔ یہ صرف یرقان (جونڈس) ہے! آپ کا بیٹا جَلد ہی ٹھیک ہو جائے گا، ڈاکٹر نے شروع میں کہا۔ یہ سن کر مجھے سکون ملا لیکن اس کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی اور پھر، میرے 7 دن کے بچے کو 8 دن تک فوٹو تھراپی دی گئی۔ اسے کھونے کے خیال سے میرا دل ڈوب سا جاتا تھا۔ تاہم، میں نے اسے بچانے کے لیے اپنی طاقت میں سب کچھ کرنے کا عزم کر رکھا تھا۔
لہذا، پچھلے 8 مہینوں میں، ہم نے احمد آباد میں کئی ڈاکٹروں سے ملاقات کی اور ممبئی بھی گئے۔ اگرچہ میں کوئی بھی چانس نہیں چھوڑنا چاہتی تھی، لیکن پیسہ ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا تھا۔ ہم نے اپنی کمائی کی ہر چیز محمد کے طبی اخراجات پر خرچ کردی، لیکن یہ بھی کافی نہیں تھا۔ بدترین وقت میں، ہمیں اکثر رشتہ داروں سے پیسے ادھار لینے پڑتے تھے۔
میں سوچتی رہتی کیا کوئی راستہ نہیں نکل سکتا ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر نے کہا کہ صرف جگر کا ٹرانسپلانٹ ہی آپ کے بیٹے کو بچا سکتا ہے لیکن، اس پر 24 لاکھ لاگت آئے گی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کہوں جب میرے شوہر عبدل نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا کہ کہاں سے آئیں گے اتنے پیسے؟ ایک فیکٹری ورکر کے طور پر، انھوں نے بمشکل ہماری بقا کے لیے پیسے جوڑے تھے۔
لیکن ہم امید کرتے رہے، فنڈز جمع کرنے کی کوشش کرتے رہے، تاکہ اپنے بیٹے کو بچا سکیں۔ اور پھر، سب سے بری خبر! اگر اس کے بلیروبن کی سطح میں 2% اضافہ ہوتا ہے، تو یہ اس کے دماغ کو متاثر کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک ٹرانسپلانٹ بھی کافی نہیں ہوگا۔
ایسا لگتا ہے کہ ہماری دنیا تباہ ہو گئی ہے، اور ہمارے پاس اس پر رونے کا وقت بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر ہمیں فوری طور پر ٹرانسپلانٹ کروانے کو کہتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے پاس ایسا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
بے بسی کے ان لمحات میں محمد کی طرف دیکھتی ہوں۔ اس نے رینگنا شروع کر دیا ہے اور یہاں تک کہ ہمارے ساتھ کھیلتا بھی ہے۔ جب اس کی ہنسی کی آواز سے ہمارا گھر گونجتا ہے تو میرا دل بہت بھر جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے، میں اس کی بیماری کے بارے میں تقریباً بھول جاتی ہوں۔ محمد زندگی میں ہمارا دوسرا موقع ہے اور میں صرف اتنی ہی امید کر سکتی ہوں کہ اسے بھی ایک اور موقع ملے جس کا وہ حقدار ہے۔