ہماری دنیا میں نہ جانے کتنے ایسے بچے ہیں جو روزانہ جھاڑیوں میں، روڈ پر یا پھر کسی کوڑے دان میں پھینکیں جاتے ہیں، وجہ چاہے کوئی بھی ہو نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے ساری زندگی کی یتیمی اور لاوارثی۔ ان میں کچھ بچے خوش نصیب ہوتے ہیں جنھیں ایسے لوگ گود لیتے ہیں جو اولاد کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں اور انھیں سگے والدین سے بھی بڑھ کر پیار کرتے ہیں۔
آج ہم آپ کو ایک ایسی ہی معصوم بچی کی کہانی سنانے جارہے ہیں جسے اس کے اپنے والدین نے پیدا کر کے مرنے کیلیئے روڈ پر چھوڑ دیا تھا۔
یہ کہانی ہے ٹِیا بھاٹیہ کی جو آج کینیڈا میں ایک اداکارہ کے طور پر کام کر رہی ہیں، انھوں نے ہمیشہ سے اپنی نجی زندگی اور بچپن کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔
وہ بتاتی ہیں، جب میں 1990ء میں پیدا ہوئی تو میرے والدین مجھے روڈ پر پھینک کر چلے گئے، جس کے بعد امبالا کے ایک یتیم خانے نے مجھے وہاں سے اٹھایا، اس وقت میں اور میری ہڈیاں بہت زیادہ کمزور تھیں، یتیم خانے والے مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور میں اس وقت تک وہاں رہی جب تک ایک پنجابی فیملی نے مجھے گود نہیں لے لیا۔ وہ ایک خوش مزاج اور زندہ دل پنجابی جوڑی تھی جو ایک بچی کو گود لینے کے خواہش مند تھے، اسطرح میں ان کی زندگی میں شامل ہوگئی۔
اور کچھ وقت بعد، ایک دن میری طبعیت بگڑ گئی اور ایسے میں جب مجھے ہسپتال لے جایا گیا اور وہاں میری ٹریٹمنٹ اور ٹیسٹ ہوئے تو معلوم چلا کہ میرے دل میں سوراخ ہے۔ میری ماں نے یہ سوچ کر یتیم خانے کال کر کے انھیں میری حالت کے بارے میں بتایا کہ ان کو اس بات کا علم ہونا چاہیے جس پر انھوں نے کہا کہ، "آپ بچی تبدیل کرسکتے ہیں"۔
یہ سن کر میرے والدین کو غصہ آگیا اور انھوں نے کہا کہ، "ہماری بچی کوئی خراب کھلونا نہیں ہے جسے تبدیل کردیا جائے"۔ اور پھر وہ مجھے لیکر کینیڈا آگئے جہاں میری سرجری ہوئی اور وہ کامیاب رہی۔
میرے والدین نے مجھے وہ زندگی دی جو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ آج وہ میرے بہترین دوست اور میری ہمت ہیں، ان سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ گود لینا ایک اچھا عمل ہے اور ہر بچہ چاہے جانے کے لائق ہے پھر چاہے وہ کیسا بھی ہو۔