ارشد شریف کو تو آپ سب ہی جانتے ہونگے اور جو نہیں جانتے وہ ان کی شہادت کے بعد انھیں جان گئے ہوں گے، لیکن ان کی اہلیہ کو کتنے لوگ جانتے ہیں؟ اور کیا ان کو جاننا ضروری ہے؟ ایک بیوہ کے بارے میں من گھڑت باتیں بنانا کیا ہمیں زیب دیتا ہے؟ ذرا سوچئے اور پھر دل سے جواب دیں! اور اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو ان کی بیوہ کا یہ پیغام پڑھ لیں
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق بھاری دل کے ساتھ لکھتی ہیں؛
ہم بطور معاشرہ کس طرف جارہے ہیں؟ اتنی بے حسی کہ کسی بیوہ کو اس کی شرعی عدت یا سوگ میں بھی چین نہیں لینے دے رہے؟ کیا مجھے رونے اور سوگ منانے بھی نہیں دیں گے؟
میں ایک صحافی ہوں اور صحافت سے رکھتی ہوں، مجھ میں اور فلم ہیروئین یا بلاگر میں بہت فرق ہے۔ وہ اپنی شادی، طلاق، خریداری، سیر وسیاحت، لڑائی، ہر چیز پر پبلسٹی لیتے ہیں جبکہ میری شناخت میرے کالم اور مضامین ہیں۔
جب میں نے 11 سال پہلے شادی کی تو اس وقت بھی لوگوں نے میری نجی زندگی کو متنازع کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے کبھی کسی کو جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔
ارشد شریف چونکہ تحقیقاتی صحافت کرتے تھے تو ہمیں بہت دھمکیاں آتی تھیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی مشترکہ تصاویر اب سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کریں گے اور میں نے اپنے سوشل میڈیا سے ان کا نام ہٹا دیا جبکہ میرے شناختی کارڈ پر ان کا نام اب بھی درج ہے۔
تاہم ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ان کی اچانک موت سے ہماری نجی زندگی پبلک کے سامنے آجائے گی۔ لوگ ہٹس اور لائیک کے چکر میں ہماری نجی زندگی میں دخل دینے لگے۔ ہمارے فون نمبرز، گھر کا پتہ، آئی کارڈز سب پبلک ہو گئے یہاں تک کہ مجھے اپنے شوہر کی میت کی بہت سی تصاویر اس میں نظر آئیں، جو میرے لیے بہت تکلیف کا باعث تھا۔
ان کے جنازے کے بعد میرے قرآن کے اساتذہ میرے پاس آئے اور کہا کہ، اگر معاشی یا طبی مسائل ہوں تو میں گھر سے باہر جا سکتی ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ، معاشی مسائل نہیں ہیں اور غم بہت زیادہ ہے اسلیئے مجھے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ میں عدت کے چار ماہ دس دن گھر سے مکمل کروں گی
میں یہ سب اپنی عدت میں لکھ رہی ہوں، ایک رنجیدہ دل کے ساتھ آنسو صاف کرتے ہوئے اپنی صفائی پیش کر رہی ہوں کیونکہ پاکستانی سوشل میڈیا نے مجھے مجبور کر دیا۔
لوگ سفاکی میں اس حد تک گر گئے کہ مجھے میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ وضاحت دینا پڑی کہ میں شرعی عدت میں ہوں، میں نے شادی نہیں کی، میری عدت کی مدت ابھی جاری ہے۔
ارشد چلے گئے اور میں زندہ ہوں، تاہم پاکستانی معاشرے میں سے کچھ لوگ مجھے زندہ درگور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مجھ پر عدت میں یہ الزام لگا دیا کہ میں نے شادی کر لی ہے۔ جس شخص کا نام لیا گیا میں ان کو جانتی ہی نہیں، نہ ہی ہماری کبھی بات ہوئی۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ اس ملک میں ایک بزرگ اور ایک بیوہ، دونوں کی عزت محفوظ نہیں۔
ہر ہفتے میرے لیے نیا محاذ کھول دیتے ہیں۔ میرے پاس قلم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میرا سب سے قیمتی اثاثہ ارشد مجھ سے چھین لیا گیا، میرے پاس کیا بچا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اب مجھ سے لڑائی، میرے خلاف منفی مہم سے کس کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟
اسلام نے بیوہ عورتوں کو بہت سے حقوق دیے ہیں۔ ان کو مرحوم شوہر کی جائیداد میں حصہ ملتا ہے اور اسلام ان کو عدت کے بعد نکاح کا بھی حق دیتا ہے تاہم پاکستان میں بہت سے شرپسند اس وقت بھی بیوہ خواتین کی کردارکشی سے باز نہیں آتے۔ ان کو مزید تنگ کر کے کیا حاصل کر لیں گے؟ اس سے کچھ بھی نہیں ہوگا، صرف آپ اپنے گناہوں کا بوجھ مزید بڑھاتے ہیں۔
آج میں نے اپنے خلاف آوازوں کو چپ نہیں کروایا تو کل یہ آپ کے خلاف بھی اتنی شدت سے سامنے آئیں گی۔