پیسہ آج کل کی بنیادی ضرورت ہے، جس کے بغیر کوئی کام کیا جا سکتا ہے اور نہ زندہ رہا جاسکتا ہے۔ زندہ رہنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ پیسے کی مدد سے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہی سوچ ایبٹ آباد کی عبیدہ باسط کی ہے جنہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران بچوں کے مستقبل کی فکر کو سنجیدہ لیا اور اس سوچ میں پڑ گئیں کہ کیسے گھر چلے گا اور بچوں کا گزارہ کیسے ہوگا جبکہ میاں کی تنخواہ محدود ہے۔
بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں عبیدہ نے بتایا کہ میں نے شوہر سے کہا آپ ضروریات مکمل کریں، میں خواہشات پوری کروں گی اور یہی سوچ رکھتے ہوئے عبیدہ نے اپنے 10 سالہ بیٹے کو بھی تھری ڈی اینیمیٹر بنایا اور بیٹی کو بھی یہ کام بخوبی سکھا رہی ہیں، ساتھ ہی خود سوشل میڈیا ایکسپرٹ بن گئیں اور یوٹیوب ٹیوٹوریل کے ذریعے انہوں نے ایڈیٹنگ سیکھی اور پھر ویڈیو سکرپٹنگ اور thumbnails بنانا سیکھے، اور ایک ہی سال میں میں ایس ای او سرچ انجن آپٹامائیزیشن سمیت ویڈیو ایڈیٹنگ میں ماہر ہوگئیں۔ عبیدہ کہتی ہیں آج میں اپنے شوہر سے 10 گنا زیادہ کماتی ہوں اور ذاتی طور پر 15 بندوں کو نوکری پر اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
10 سالہ عبدالاحد کہتے ہیں میرے پاپا نے مجھ سے 10 ہزار روپے لیے تھے اپنے آفس کا لیپ ٹاپ بنوانے کے لیے اور 3 مہینے سے وہ مجھے پیسے دے نہیں پا رہے۔ جس کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ ہم نے تھری ڈی اینیمیشن سے اچھا خاصا کام سیکھ لیا اور پیسے بھی خود ہی کما لیے۔ پہلے میں بولتا تھا ڈاکٹر یا انجینیئر بنوں گا لیکن اب میں اینیمیٹر بنوں گا اور مجھے یہ کام بہتر طور پر سمجھ بھی آ چکا ہے۔
عبیدہ کے مطابق: بچوں کی ویڈیوز بناتے ہوئے مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھ کو اس کام میں ایسی مہارت حاصل ہو گئی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے اب میں آن لائن مختلف ویب سائٹس پر کام کرکے پیسے کما سکتی ہوں اور پھر فائیوور پر اپنا اکاؤنٹ بنایا۔
مجھے پہلا آڈر صرف پانچ ڈالر کا ملا تھا، مگر میرا کام یعنی میری بنائی ہوئی ویڈیو اس کینیڈین کمپنی کو اتنی پسند آئی کہ اُنھوں نے مجھے فل ٹائم نوکری کی پیشکش کر دی، جسے میں نے قبول کر لیا۔