عورت نے اپنے حق مہر میں ایک لاکھ کی رقم کے بجائے کتابیں کیوں مانگ لی ؟

image

آج میری شادی کی رات میرے بیڈ روم اور ایک دوسرے کمرے میں بہت ساری کتابیں پڑی ہیں۔ یہ وہ کتابیں ہیں جو میں نے حق مہر میں اپنے خاوند سے مانگی تھیں۔ کچھ ہم نے الماریوں میں اوپر رکھ دیں لیکن بہت ساری اب بھی کارٹن میں بند پڑی ہوئی ہیں۔ شادی کی رسومات سے فارغ ہو کر پھر ان کتابوں کو سنبھالوں گی۔‘

خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں گذشتہ روز شادی کرنے والی دلہن نائلہ شمال صافی نے ٹیلی فون پر بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ جب اُن کے سامنے نکاح نامہ رکھا گیا اور اُن سے کہا گیا کہ حق مہر میں کیا اور کتنا چاہیے، تو اُنھوں نے حق مہر میں ایک لاکھ پاکستانی روپے کی کتابیں مانگیں۔

’مجھے دس پندرہ منٹ وقت دیا گیا کہ سوچ لو اور پھر بتانا۔ میں نے سوچا اور اس سے اچھا اور کوئی حق مہر ذہن میں نہیں آیا۔‘

نائلہ شمال صافی چارسدہ کے علاقے تنگی جبکہ ان کے شوہر ڈاکٹر سجاد ژوندون مردان کے علاقے ’بھائی خان‘ کے رہائشی ہیں۔

سجاد ژوندون نے پشتو میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہے جبکہ نائلہ شمال صافی اس وقت پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سجاد ژوندون کا کہنا تھا کہ جب اُنھوں نے اپنی منگیتر کے حق مہر کے بارے میں سنا تو اُنھیں خوشی ہوئی کہ اس سے حق مہر میں مانگی جانے والی زیادہ رقوم کے رواج کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔

اس نئے جوڑے کے نکاح نامے میں مہر کی رقم کے سامنے خانے میں لکھا گیا ہے کہ ’ایک لاکھ روپے پاکستانی رائج الوقت مالیت کی کتب۔‘ شاید ہی کسی نکاح نامے میں ایسا کوئی ذکر ہو۔

سجاد ژوندون کے مطابق خیبر پختونخوا میں اکثر حق مہر میں لڑکے والوں سے 10 سے 20 لاکھ روپے مانگے جاتے ہیں جبکہ جہیز میں قسم قسم کی فرمائشیں کی جاتی ہیں۔ اس جوڑے کے مطابق ان روایات کو ختم کرنے کے لیے کسی کو تو پہل کرنی ہوگی، سو وہ انھوں نے کر دی۔

’رائج رسم و رواج کے خلاف پہلا قدم جب اُٹھایا جاتا ہے تو یقیناٗ اُنھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن ہمارے اس کام کو ابھی تک سب نے سراہا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب دنیا بہت آگے جا چکی ہیں، اسی لیے ہمیں بھی آگے چلنا چاہیے۔‘

نائلہ شمال صافی کے مطابق اُنھوں نے ژوندون کے ساتھ ساتھ کتابوں سے بھی رشتہ کر لیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس حق مہر پر اُن کی سہیلیوں یا رشتہ داروں نے کچھ کہا یا نہیں، نائلہ شمال کا جواب تھا کہ ’سب نے ہمارا یہ قدم سراہا ہے، آج ہمارے ولیمے کی دعوت تھی، تو میرے والدین سمیت بہت سارے رشتہ دار آئے تھے اور سب خوش تھے۔‘

شادی کے دعوت نامے پر دلہن کا نام اور تصویر

خیبر پختونخوا سمیت پاکستان اور افغانستان کے کئی علاقوں میں شادی کے دعوت نامے پر صرف دلہے کا نام اور دلہن کے والد کا نام لکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سجاد ژوندون نے اپنی شادی کے دعوت نامے پر نہ صرف دلہن کا نام لکھا تھا بلکہ اس دعوت نامے کے اوپر دونوں کی تصاویر بھی لگی ہوئی تھیں۔ دعوت نامے پر لگی ان تصاویر میں حتیٰ کہ دلہن کی تصویر تھوڑی سی بڑی نظر بھی آ رہی ہیں۔ ’شادی میاں بیوی کی رضامندی سے ہوتی ہیں اور ایسا ہرگز نہیں کہ بیوی خاوند کی پراپرٹی ہوتی ہے۔‘

عمران آشنا ڈاکٹر سجاد ژوندون کے قریبی دوست ہیں اور وہ ان کی شادی میں شریک بھی ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شادی نے ایک بار پھر اس تاثر کو رد کیا کہ کتابوں کے چاہنے والے نہیں ہیں۔ ’اس سے یہ بھی پیغام دیا جاتا ہے کہ کتاب سے محبت اب بھی ہے اور یہ محبت ختم نہیں ہوئی۔‘

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اس جوڑے کے حق مہر کو لے کر سوشل میڈیا پر بہت سے قارئین نے اس قدم کو سراہا ہے۔

ڈاکٹر سجاد ژوندون کے مطابق جہاں بہت سارے لوگ کسی اچھے کام کو سراہتے ہیں تو وہاں اُن کے مخالفین بھی ہوں گے، تاہم ابھی تک اُن کے اس اقدام کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی ہے۔

News Source: BBC URDU
You May Also Like :
مزید