یہ کہانی ایک عام بھارتی لڑکی کی ہے جس نے اپنی زندگی میں بہت کچھ دیکھا اور سہا ہے۔ آئیے اسی کی زبانی سنتے ہیں
شادی میرے لیے ایک سخت آزمائش تھی۔ شادی کے 2 ہفتے بعد ہی میرے شوہر نے مجھ سے ایسی باتیں کہیں کہ جسے سن کر میں منوں مٹی تلے دب گئی، وہ مجھ سے پوچھتا تھا تم بہت خوبصورت ہو، تم نے کبھی بوائے فرینڈ نہیں بنایا؟ تم بستر پر اتنی ناتجربہ کار کیوں ہو؟ اسطرح کی باتیں وہ مجھ سے پوچھتا تھا جو چونکا دینے والی اور ذلت آمیز تھیں۔
اماں نے کہا وہ آدمی ہے، بچہ ہونے سے چیزیں بدل جائیں گی تم صبر کرو لیکن حالات مزید خراب ہو گئے۔ ایک بار اس نے مجھے 100 روپے کا ایک نوٹ دیا اور کہا کہ، "یہ لو کل رات کی تمہاری کارکردگی کے لیے"۔
صرف یہی نہیں وہ اکثر اپنی گرل فرینڈز کے بارے میں بھی کہانیاں سناتا تھا۔ میں سب کچھ خاموشی سے سنتی گئی، کیونکہ میں اپنے والدین کو یہ باتیں بتانے میں بہت شرمندگی محسوس کرتی تھی۔ لیکن جب برداشت کی حد ختم ہوئی تو میں اپنے گھر آگئی، پر اماں ابا کو اصل وجہ نہیں بتائی۔
والدین نے مجھ سے صلح کرنے کو کہا اور میرا شوہر بھی مجھے فون کرتا، وہ مجھے کال پر کہتا کہ "گھر آجاؤ یا پھر میرے لیے کوئی اور لڑکی ڈھونڈو"۔ میں اس آدمی کو اپنی زندگی سے نکالنا چاہتی تھی۔
لیکن پھر، ایک دن مجھے پتہ چلا کہ میں حاملہ ہوں۔ جتنی خوشی میں ماں بن کر محسوس کررہی تھی اتنا ہی مجھے اس بات کا خوف بھی تھا کہ میں اس آدمی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے بندھ جاؤں گی۔ مجھے بیٹی کے پیدا ہونے سے ڈر لگتا تھا، میں نہیں چاہتی تھی کہ اسے ان تمام چیزوں کا سامنا کرنا پڑے۔ میں نے بے بس محسوس کرنے لگی۔ میرے ذہن میں اس وقت صرف 1 ہی راستہ تھا اور وہ تھا اپنی زندگی ختم کرنے کا۔
چنانچہ میں نے اپنے پیدا ہونے والے بچے کو خط لکھا، جس میں اپنی بے بسی کی وضاحت کی اور اس سے معافی کی بھیک مانگی۔ اسکے بعد، میں نے خود کو آگ لگانے کی کوشش کی، ماچس جلانے کی 49 ناکام کوششوں کے بعد میں 50ویں بار میں کامیاب ہوئی۔ لیکن میرے گھر والوں نے مجھے بچالیا، ابا نے پانی کی بالٹی مجھ پر ڈالی اور مجھے ہسپتال لے گئے۔
میں 55 فیصد جلنے سے بچ گئی تھی لیکن میری دنیا بکھر گئی تھی اور یہ اس لیے تھا کہ میں نے اپنا بچہ کھو دیا تھا۔ میں نے خود کو مجرم محسوس کیا اور اپنے آپ کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا۔ مہینوں پردے کے پیچھے چھپ کر گزارے کیونکہ میں سوچتی تھی اگر یہ پردہ ہٹ گیا تو لوگ میری طرف سے اپنا منہ پھیر لیں گے۔ میں نے کام تلاش کرنا شروع کر دیا لیکن لوگ صرف معافی مانگتے تھے اور میں جانتی ہوں کہ کیوں!
میں جانتی تھی میرا زندہ رہنا کوئی اتفاق نہیں تھا، میں ان لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتی تھی جنہوں نے میری طرح نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ جسمانی طور پر بھی تکلیف اٹھائی تھی۔ میری پلاسٹک سرجری نے مجھے احساس دلایا کہ کتنے لوگوں کے پاس وہ بھی نہیں تھا جو میرے پاس تھا 'اپنے گھر والوں کا تعاون'۔
تب ہی میں اپنے گاؤں میں ایک شخص سے ملی جس نے مجھے میڈیکل کے شعبے میں جانے کو کہا، میں ایک ڈاکٹر کی ہیلپر کے طور پر حیدرآباد چلی گئی۔ اور پھر، اپنے والدین کے تعاون سے میں نے "برن سروائیور مِشن سیویئر ٹرسٹ" شروع کیا۔ جو لوگوں کو مفت پلاسٹک سرجری فراہم کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا قدم تھا۔
یہ 10 سال پہلے کی بات ہے اور اب تک، ہم نے ہندوستان بھر میں تقریباً 140 لوگوں کو 950 پلس کونسلنگ سیشن اور مفت پلاسٹک سرجری فراہم کی ہے۔ اتنے سالوں کے دوران، میں بہت سارے لوگوں سے ملی جو بہت زیادہ تکلیف سے گزر رہے تھے۔ تب میں نے سوچ لیا، میں اب اپنا چہرہ نہیں بدلوں گی کیونکہ میرے زخموں کی وجہ سے دنیا نے مجھ پر اپنے دروازے بند کر دیے تھے لیکن میں نے اپنا راستہ خود بنایا۔