کہتے ہیں مرد کے بنا عورت ادھوری ہے پر اس دنیا میں ایسی بھی کئی خواتین ہیں جو اکیلے ہی بنا مردوں کے اپنی زندگی گزارتی ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اب وہ دور ختم ہوگیا ہے جہاں مرد حکمران اور غالب ہوتے تھے اور اب برابری کا زمانہ آگیا ہے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہے آج بھی دنیا میں ایسی بہت سی جگائیں ہیں جہاں عورتوں کو صرف اشیاء کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
کینیا جیسے مشرقی افریقی ملک میں، چند سال پہلے خواتین مردوں کے لیے ایک آلے کے طور پر تھیں اور ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ صرف چودہ سال کی عمر میں انکی شادی زبردستی کروادی جاتی تھی اسکے بعد مرد جیسے چاہئیں انھیں رکھتے تھے۔ اسی رواج کو توڑتے ہوئے وہاں کی کچھ خواتین نے ایک گاؤں بنایا جہاں مردوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ وہاں کی خواتین نے اپنے قبیلے کا نام "اوموجا" رکھا ہے جسکا مطلب "اتحاد و اتفاق" ہے۔
وہاں رہنے والی ایک نوجوان لڑکی سے جب اس گاؤں کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ کیسے بنا اور کیوں بنا تو اس نے بتایا کہ؛ "اس گاؤں کی بنیاد 1990 میں اس وقت رکھی گئی جب برطانوی فوج نے ان کے قبیلے کی سات خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ وہاں کی خواتین پہلے ہی اپنے مردوں کے ظلم و ستم سے پریشان تھیں، اسلیئے انھوں نےاس ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک ایسے گاؤں کی بنیاد رکھیں گی جہاں صرف عورتیں ہونگی۔ اور اب یہ تعداد سات سے بڑھ کر اڑتالیس ہوگئی ہے" اسی انٹرویو کے دوران جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو مرد پسند ہیں تو اس نے کہا "نہیں"مزید پوچھا، کیا آپ کے ساتھ بھی کوئی برا تجربہ ہوا تھا؟ تو اس نے کہا کہ نہیں میرے ساتھ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا پر مرد اچھے نہیں ہوتے یہ میرا ذاتی خیال ہے۔
مردوں سے متعلق جب سوال کیا گیا کہ اگر وہ آکر آپ کو پریشان کرنے کی کوشش کریں تو؟ اس پر انھوں نے کہا ہم پولیس کو کال کرتے ہیں کیونکہ ہمیں پورا حق ہے اپنی حفاظت کا، لیکن اس لیے کہ یہاں کی پولیس کوئی خاص مدد نہیں کرتی لہذا ہم سب کچھ لکڑیاں کاٹ کر اسکی لاٹھیاں بناتے ہیں اور انھیں مار کر بھگا دیتے ہیں ہیں۔ اس کے بعد جج سے جاکر ان کی شکایت کرتے ہیں۔
ااس گاؤں میں رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ شادی نہیں کرسکتے، اگر یہاں کسی کو شادی کرنی ہوتی ہے تو وہ باہر جاکر کرسکتی ہے یہاں بہت سی ایسی خواتین بھی ہیں جو طلاق شدہ ہیں۔ اس گاؤں میں صرف وہی عورتیں رہ سکتی ہیں جو کنواری ہو، طلاق شدہ، بیوہ یا پھر چھوٹی عمر کی وہ بچیاں جو نابالغ شادی سے بچنے کیلیئے بھاگ کر ادھر آتی ہیں، ان تمام خواتین کا انکے بچعن سمیت یہاں کھلے دل سے استقبال ہوتا ہے اور انکی حفاظت بھی کی جاتی ہے۔ اسکے ساتھ ہی وہاں ایک اسکول بھی بنایا ھیا ہے جہاں سے بچے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔