ہمارے معاشرے میں آج بھی شادی بیاہ کے معاملے میں لڑکیوں کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زيادہ نہیں ہے ۔ کس سے شادی کرنی ہے اور کب شادی کرنی ہے یہ تمام فیصلے کرنے کا اختیار لڑکی کے گھر والوں کا ہوتا ہے ۔ آج بھی اکثر گھرانوں میں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کو کسی کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے اور یہ نسبت اکثر اوقات اس کو خوشی دینے کے بجاۓ ساری عمر کا داغ دے جاتی ہے۔
بچپن کی منگ
بچپن کی منگ کے لیۓ عمر کی قید نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی بچوں کی رضامندی کا اس سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ تاہم اس کے اثرات اکثر بچوں کی زندگی کو ضرور تباہ کر دیتے ہیں۔ اور بعض گھرانوں میں تو ان بچوں کے جوان ہونے کے بعد کشت و خون کا باعث بھی بن جاتے ہیں
مستقبل کا حال اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا
عام طور پر رشتے داروں کے باہمی تعلقات میں اتار چڑھاؤ آنا ایک فطری سی بات ہے۔ ایسا کوئی فارمولا موجود نہیں ہے کہ جو انسان آج آپ کو جان سے زيادہ پیارا ہے آج سے دس پندرہ سالوں بعد بھی آپ کے احساسات اس کے لیۓ یکساں رہیں گے اسی وجہ سے والدین کے رشتوں میں ہونے والی تبدیلیاں بچوں میں بالغ ہونے کے بعد بہت مسائل کا سبب بن سکتی ہیں۔
بچپن کی منگ کے لڑکیوں پر اثرات
لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں قدرے حساس ہوتی ہیں۔ اس کے بعد بچپن سے منگنی ہونے کے بعد دوہری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک جانب تو والدین کی جانب سے روک ٹوک ہوتا ہے اور دوسری جانب اس کے زندگی کے ہر فیصلے میں اس کے سسرال والے بھی شامل ہو جاتے ہیں
کیا پڑھنا ہے کتنا پڑھنا ہے برقع پہننا ہے یا دوپٹہ اوڑھنا غرض ایسے تمام فیصلے اس کے سسرال کی جانب سے اس پر مسلط کیے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد اگر لڑکی تعلیمی میدان میں کچھ کرنے کی خواہشمند ہو تواس کو یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ چونکہ لڑکیوں شوہر سے زيادہ پڑھ جائیں تو ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو سکتی ہے اس وجہ سے اس پر تعلیم کے دروازے بھی بند کر دیۓ جاتے ہیں
اگر شادی نہ ہو سکے
اس رشتے کا پایہ تکمیل تک یعنی شادی تک پہنچنا بھی ایک نازک مرحلہ ہوتا ہے جس میں کبھی تو رشتے داروں کے باہمی خراب تعلقات رکاوٹ بن جاتے ہیں تو کبھی اس کا سبب لڑکے لڑکیوں کے بڑے ہونے کے بعد رجحان میں تبدیلی ہو سکتا ہے
مگر ہمارے معاشرے میں لڑکی کے لیۓ ایسی منگنی ٹوٹنا انتہائی مسائل کا سبب بن سکتا ہے ۔ کیوں کہ معاشرہ ایسی لڑکی کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتا ہے جس کے خیالوں میں بچپن سے کوئی اور تھا وہ کسی نۓ انسان کے ساتھ ایڈجسٹ نہ ہو سکے گی
مںگنی تو ٹوٹ گئی مگر عزت یہ میری ہی ہے
بچپن کی منگنی کا ایک اور نازک پہلو جس کا سامنا لڑکیوں کو کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ اگرچہ اس کے منگیتر کو اس سے شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود اس کا دعوی ہوتا ہے کہ یہ اس کی بچپن کی منگ ہے اس وجہ سے یہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی کیوں کہ اس سے اس کی غیرت پر حرف آتا ہے۔ اس بنا پر لڑکا تو اپنی مرضی سے کہیں بھی شادی کر لیتا ہے مگر لڑکی بے چاری اپنے گھر میں ہی بیٹھی رہ جاتی ہے
عوامل:
یہ تمام عوامل ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف بچوں کی زندگی کو خراب کر دیتے ہیں بلکہ اس سے پورے خاندان کو بھی مستقل طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیتے ہیں اس وجہ سے موجودہ زمانے میں اس قسم کے فیصلوں سے بچنا ضروری ہے