عام طور پر ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ میاں اور بیوی دونوں ایک ہی شعبے سے منسلک ہوں اور دونوں ہی اس شعبے میں نہ صرف کامیابیوں کے جھنڈے گاڑیں بلکہ ایک دوسرے کی کامیابی پر فخر بھی محسوس کریں
بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی پہلی ملاقات 1949 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے کے دوران ہوئی ان کی شادی کے حوالے سے معروف مصنف ممتاز مفتی نے اپنی کتاب الکھ نگری میں سارا واقعہ تحریر کیا ہے
ان کا کہنا تھا ان دونوں کی دوستی کا آغاز بہت دلچسپ تھا ۔ اشفاق احمد کا شمار کالج کے شوقین مزاج لڑکوں میں ہوتا تھا جو کہ لڑکیوں سے دوستی میں بہت دلچسپی رکھتے تھے لیکن اگر کوئی لڑکی ان کی پیش قدمی کا مثبت جواب دیتی تو وہ فورا اس سے دور ہٹ جاتے ۔
ان کی نظر انہی لڑکیوں کے بیچ میں جب بانو قدسیہ پر پڑی تو ان کو بانو قدسیہ بہت مختلف لگیں ۔ ایک دن بات کے آغاز کے لیۓ اشفاق احمد بانو قدسیہ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوگۓ اور ایک آنہ کا سوال کیا جس پر بانو قدیسہ نے ان سے دریافت کیا کہ ایک آنہ کس لیۓ چاہیے تو اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ ان کو سگریٹ پینی ہے
اس کے بعد سے بانو قدسیہ ہر وقت اپنے پرس میں کھلے پیسے رکھنے لگیں تاکہ وہ اشفاق احمد کو ایک آنہ دے سکیں ۔ رفتہ رفتہ یہ ایک آنہ ایک محبت میں بدلنے لگا مگر اشفاق احمد جانتے تھے کہ ان کے گھر والے اس رشتے کے لیۓ راضی نہ ہوں گے تبھی انہوں نے اداسی اوڑھ لی
دوسری طرف بانو قدسیہ کی والدہ بھی ایک گرلز کالج کی پرنسپل اور اصولوں کی سخت خاتون تھیں وہ بھی بغیر ماں باپ کے اشفاق احمد کا رشتہ بیٹی کے لیۓ قبول کرنے کو تیار نہ تھیں
اسی دوران اشفاق احمد کو دو سال کے لیۓ روم جانا پڑا اور واپس آنے کے بعد جب گھر والوں نے اشفاق احمد کی شادی کی کوشش شروع کی تو اشفاق احمد نے شادی سے منع کر دیا جب کہ انہوں نے اسی دوران دوبارہ سے بانو قدسیہ کی تلاش شروع کر دی
اس موقع پر اشفاق احمد کا ساتھ ان کے دوست محمد حسین اور ممتاز مفتی نے دیا اور انہوں نے پہلے اشفاق احمد کی ماں کو ان کی محبت کے بارے میں بتایا اور اس کے بعد ان کے بڑے بھائی جس کو سب کھکو کہتے تھے اس کو اس شادی کے لیۓ تیار کیا
مگر اشفاق احمد کے والد کسی صورت اس شادی کے لیۓ تیار نہ تھے دوسری جانب بانو قدسیہ کی والدہ بھی اس شادی کے لیۓ تیار نہ تھیں جس کے بعد مجبورا ان دونوں کو والدین کے بغیر نکاح کرنا پڑا اور اس طرح دسمبر 1956 میں ایک رات ان دونوں کا نکاح اشفاق احمد کے بھائی ، محمد حسین اور ممتاز مفتی کی موجودگی میں پڑھا دیا گیا
اس طرح سے صرف ایک آنے نے ان دونوں کو ملا دیا