بچوں کی شادی کے بعد میں نے میٹرک کا امتحان دیا ۔۔۔ گھر والوں سے چھپ کر بڑھاپے میں کیوں پڑھائی کرنے لگی؟

image

کہتے ہیں کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی انسان جب چاہے جہاں چاہے جس عمر میں چاہے علم حاصل کرسکتا ہے۔ اس بات کی جیتی جاگتی مثال ممبئی سے تعلق رکھنے والی خاتون کلپنا ہے جس نے اکاون سال کی عمر میں دسویں جماعت کے امتحان دیئے ہیں۔ بھارتی ویب سائٹ ہیومنس آف بمبئی کے شائع کردہ انٹرویو کے مطابق کلپنا کو بچپن سے ہی پڑھنے کا بہت شوق تھا، لیکن تیرہ سال کی عمر میں ہی اس کے والد کی نوکری چلی گئی جس کی وجہ سے انھیں گاؤں آنا پڑا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اسکے والد کا انتقال بھی ہوگیا جس کی وجہ سے کلپنا کو اسکول چھوڑنا پڑا۔ اور جوان ہوتے ہی اسکی ماں نے اسکی شادی کروادی۔

بچوں کی تعلیم و تربیت:

شادی کے بعد میں اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ بہت خوش تھی لیکن کہیں نہ کہیں بچوں کو پڑھتا دیکھ کے مجھے اپنی پڑھائی چھوٹ جانے کا افسوس میں رہتا ہی تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچوں نے گریجویشن کرلیا۔ اور انکی شادی کے بعد وہ اپنی اپنی زندگی میں سیٹ ہوگئے۔انھیں دیکھ کے میں بہت مطمئن تھی۔

بچپن کا خواب:

پچھلے سال مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بچپن کا خواب پورا کروں اپنی پڑھائی مکمل کرکے، ذہن میں یہ خیال آتے ساتھ ہی لوگوں کا خیال بھی آیا کہ اس عمر میں پڑھائی کروں گی تو کوگ کیا کہین گے۔ پر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ لوگوں کا تو کام ہی ہے کہنا۔ بس پھر کیا تھا سب سے چھپ کر میں نے قریب ہی ایک نائٹ اسکول میں داخلہ لے لیا، پڑوسی پوچھتے تو کہتی کہ شام میں سبزی سستی ملتی ہے وہی لینے جاتی ہوں۔ اس وقت میری عمر 51 سال تھی۔

اسکول کے دوست:

اسکول میں گزارے وہ روز کے 3 گھنٹے میری زندگی کے بہترین پل تھے، میں کلاس میں سب سے بڑی تھی لیکن اسکے باوجود ہم سب دوست تھے ساتھ میں ہر موقعے کو سیلیبریٹ کرتے تھے۔ یہ بات میں نے اپنے گھر والوں سے بھی چھپائی ہوئی تھی، میں کمرے میں چھپ کر رات کو پڑھائی کیا کرتی تھی۔

بچوں کا مثبت رویہ: ایک دن میں نے سوچا آخر کب تک یہ بات میں چھپاؤنگی، بورڈ کے امتحان سے دو مہینے پہلےمیں نے ہمت کر کے اپنے بڑے بیٹے کو یہ بات بتائی جب اسے پتہ چلا تو وہ خوشی سے میرے گلے لگ گیا باقی سب بھی یہ بات سن کے بہت خوش ہوئے اور اتنی دیر سے بتانے کا شکوہ بھی کرنے لگے۔ اس دن ایسا لگا جیسے دل سے بوجھ اتر گیا ہو۔

صبر اور محنت کا پھل:

بورڈ کے امتحان میں میرے بیٹے اور بہوؤں نے میری بہت مدد کی، آخر وہ دن آگیا جس دن دسویں کا نتیجہ آنے والا تھا میں بہت گھبرا رہی تھی مجھے تھا کہ 50، 60 فیصد نمبروں سے پاس ہوجاؤں گی لیکن جب میرے بیٹے نے نتائج دیکھے تو خوشی کے مارے چھلانگیں مارنے لگا اس نے بتایا کہ میں 79.69 فیصد کے ساتھ پاس ہوئی ہوں۔ اس وقت مجھے یقین ہی نہیں ہورہا تھا، میرے شوہر نے پورے محلے میں مٹھائی بٹوائی۔ اس دن مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں وہ 15 سال والی کلپنا ہوں جو پڑھنا چاہتی تھی آج اگر میری ماں زندہ ہوتی تو بہت خوش ہوتی۔ خیر ابھی تو بس شروعات ہے آگے اور پڑھنا ہے۔

You May Also Like :
مزید