کیا عورت کو طلاق کا حق ملنا چاہیۓ ، بشری انصاری کے والد نے 36 سال پہلے ان کو یہ حق کیوں دلوایا تھا؟

image

نکاح نامہ ایک ایسی دستاویز ہوتا ہے جو کہ مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس میں ایجاب قبول کے ساتھ ساتھ وہ تمام شرائط موجود ہوتی ہیں جس کی بنیاد پر دونوں ساری زندگي گزارتے ہیں

کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں محبت ہونی چاہیۓ نکاح نامے کی شرائط طے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ کسی حد تک یہ بات حقیقت بھی ہے مگر ان شرائط کی اہمیت اور ضرورت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کہ جوڑے میں معاملات بگڑ جائيں

نکاح نامے میں عورتوں کو طلاق کا حق

عام طور پر اکثر معاشرے میں جو چیز عام طور پر دیکھی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ نکاح نامے میں طلاق کا حق مرد کو حاصل ہوتا ہے تو اس سبب مرد ظلم بھی کرتا ہے اور اس کے بعد طلاق دینے سے انکار بھی کرتا ہے تو اس صورت میں عورت ظلم برداشت کرنے کے باوجود یا تو طلاق کی بھیک مانگتی رہے یا پھر خلع کے لیۓ عدالت سے رجوع کرۓ جس صورت میں اس کو حق مہر اور اپنے بہت سارے حقوق سے دست بردار ہونا پڑے گا

36 سال قبل بشری انصاری کا نکاح نامہ

آج کل کے معاشرے میں اب جب کہ خواتین میں آگاہی پیدا ہو رہی ہے تو کچھ لڑکیاں نکاح نامے کو صرف ایجاب قبول تک محدود رکھنے کے بجاۓ اس کی شرائط پر بھی غور کر رہی ہیں

اب لڑکیاں نکاح نامے میں ماہانہ خرچے کے ساتھ ساتھ طلاق نامے کا حق بھی اپنے پاس رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں جس کے جواب میں کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک غیر اسلامی عمل ہے جب شریعت نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا تو پھر نکاح نامے میں ایسی شق ایک غیر اسلامی رسم ہے

مگر یہاں معروف اداکارہ بشری انصاری کی مثال آج سے 36 سال پہلے کی موجود ہے جب ان کے والد نے بشری انصاری کے نکاح کے وقت نکاح نامے میں طلاق کا حق اپنی بیٹی کے پاس رکھوایا تھا

نکاح نامے میں طلاق کے حق کی وجہ

اس حوالے سے ایک انٹرویو میں بشری انصاری کا یہ کہنا تھا کہ ان کے والد کی بہن کو اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ان کے والد نے جب ان کی شادی کی تو نکاح نامے میں طلاق کا حق بشری انصاری کے نام لکھوایا

بشری انصاری کا یہ کہنا تھا کہ شادی کے شروع میں ہی ان کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی اور ان کے شوہر کے درمیان تعلقات مثالی نہیں ہیں مگر انہوں نے اس وقت یہ سوچا کہ شادی کو ٹائم دینا چاہیۓ ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کل کے دور کے بچے فوری طور پر طلاق کی طرف چلے جاتے ہیں اور اپنے رشتے کو وقت نہیں دیتے مگر انہوں نے پوری کوشش کی کہ کسی انتہائی فیصلے پر نہ پہنچیں

اس کے بعد بچیوں کی پیدائش کے بعد ان کی سوچ کا محور ان کی اولاد کے ساتھ جڑ گیا اور انہوں نے اس وقت یہ سوچا کہ ان کے کسی فیصلے کا اثر ان بچیوں پر کتنا پڑے گا لہذا ان کی خاطر انہوں نے سب برداشت کیا

بچیوں کی شادی کے بعد فیصلہ

اس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ بچیوں کی شادی کے بعد اور ان کے بچوں کی پیدائش کے بعد جب وہ اکیلی رہ گئيں تو انہوں نے سوچا کہ اب اپنے اس حق کو استعمال کرنے کا وقت ہے جو ان کے والد نے ان کو تفویض کیا ۔ ایک تکلیف دہ تعلق سے علیحدہ ہونے کا وقت ہے جس کے بعد انہوں نے طلاق دینے کا فیصلہ کیا

لڑکیوں کو طلاق کا حق

لوگ عورت کو ناقص العقل قرار دیتے ہوۓ طلاق کا حق عورتوں کو دینے کی مخالفت کرتے ہیں ۔ لیکن آج کل کے دور میں جب عورتوں نے تعلیم اور شعور کے میدان میں تیزی سے ترقی کی ہے اس صورت میں طلاق کے حق کو اس عورت کو تفویض کرنا کیا وقت کی اہم ضرورت نہیں ہے

You May Also Like :
مزید