خون کی سرخی سڑک کی سیاہی کو دھندلا رہی تھی۔ اب لال لال خون، کالی سڑک پر ایک ہنستے بستے شہر کے اجڑ جانے کا نوحہ لکھ رہا تھا۔ یہ سرخی کراچی کا مستقبل سیاہ کرنے والی تھی۔۔۔
گَڈ مَڈ ہوتے سرخ و سیاہ رنگوں کے بیچ ڈولتا روشنیوں کا شہر، تشدد کی تاریکیوں میں ڈوبنے والا تھا۔
یہ پیر 15 اپریل 1985 کی تیز چلچلاتی دھوپ سے نہاتی ہوئی صبح تھی۔
بالکل ابھی ابھی، کراچی کے سب سے معروف علاقوں میں سے ایک ناظم آباد کی (مشہور) چورنگی سے متّصل سیّد الطاف علی بریلوی روڈ پر ’ایکس تھری‘ رُوٹ کی ایک تیز رفتار فورڈ ویگن (منی بس) نے وہیں، بالکل ہی سامنے واقع سرکاری تعلیمی ادارے سرسیّد گورنمنٹ گرلز کالج کی بیس سالہ طالبہ بشریٰ زیدی اور اُن کی بڑی بہن نجمہ کو کچل دیا تھا۔
منی بس کے چرچراتے پہیوں نے طالبات کو ہی نہیں شہر کے امن و امان اور چین و سکون کو بھی کچل ڈالا۔ بشریٰ زیدی کا خون سڑک کی خاک میں کیا مِلا کہ شہر کے مقّدر میں صرف خاک و خون ہی رہ گیا۔
آج سے ٹھیک 37 برس پہلے رونما ہونے والے اس حادثے میں ہلاک ہونے والی جواں سال طالبہ کے جسم سے بہنے والا خون اور اس کو کچل دینے والی منی بس کے ڈرائیور کے چہرے سے ٹپکنے والا خوف ایک چہرے اور ایک جسم تک محدود نہیں رہے۔۔ ۔پھر ہر بستی میں خون بہا، ہر محلّے پر خوف چھا گیا۔
ہر انسان کی طرح بشریٰ زیدی کی جان بھی یقیناً انمول تھی۔ ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے کہ اُن کے اہل خانہ کے لیے یہ زخم آج تک نہیں بھر سکا ہوگا۔
اِس حادثے کی وجہ سے اُن کے اہل خانہ و خاندان جس دکھ اور کرب سے گزرے ہوں اور ہر برس آج ہی کے دن جو اذیّت انہیں ہوتی ہوگی اُس کا اندازہ اُن کے علاوہ کسی کو نہیں ہوسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم جیسے اہلِ کراچی کے دلوں سے پھوٹنے والی جو ہمدردی بشریٰ زیدی کے حصّے میں آئی، آج تک شہر کی کسی اور طالبہ کو کبھی نصیب نہ ہو سکی۔
آج 36 برس بعد اس حادثے کی ان تفصیلات کو لکھتے وقت بھی سر توڑ کوشش کے باوجود بشریٰ زیدی کے اہل خانہ سے رابطہ تو ممکن نہ ہوسکا مگر ہم سب اہلِ کراچی بشریٰ زیدی کے خاندان کے دکھ میں خود کو آج بھی برابر کا شریک تصوّر کرتے ہیں۔
لیکن کیا محض ایک حادثے میں ایک طالبہ کی ہلاکت سے زندگی سے بھرپور شہر ایسے تشدّد کی لپیٹ میں آسکتا تھا جس کے اثرات آسیب کی طرح آج بھی کراچی کی سڑکوں پر منڈلاتے ہیں؟
اِس سوال کا جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک اُس وقت کے کراچی پر ایک نظر نہ ڈال لی جائے، ان دنوں کی سیاست کا تجزیہ نہ کرلیا جائے، اِس حادثے، اُس کے نتیجے میں جنم لینے والے احتجاج اور ردِّعمل میں پھوٹ پڑنے والے فساد کی تفصیل نہ جان لی جائے۔
حادثہ کیسے ہوا؟
اُس وقت اور بعد کے اخبارات سے پتہ چلتا ہے کہ حادثے کی خبر پر ایک نہیں کئی موقف اختیار کیے گئے۔
بدقسمتی سے اُس زمانے کی انتظامیہ یا پولیس کے وہ زیادہ تر افسران جو اس واقعے یا اس کی تحقیقات سے متعلق رہے اب اسِ دنیا میں نہیں ہیں۔
وہ صحافی جنہوں نے اس واقعے اور بعد کے حالات کو رپورٹ کیا ان میں سے بھی زیادہ تر، یا تو اب ہمارے درمیان نہیں رہے یا پھر اُن کی یادداشت اس قدر دھندلا چکی ہے کہ اب تفصیل بتانے سے قاصر ہیں۔
لہٰذا محض اُس مواد پر بھروسہ کرنا پڑے گا جو آج یا تو بعض عینی شاہدین اور صحافیوں کی یادداشتوں میں دھندلا دھندلا سا محفوظ ہے یا پھر انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
اب اس واقعے کو دوبارہ لکھنے کے لیے کئی روز تک درجنوں افراد سے گفتگو کی گئی ہے۔ ان افراد میں حادثے کے بعد احتجاج کے عینی شاہدین، جن میں اس وقت سرسیّد گرلز کالج کی طالبات، آس پاس واقع دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا اور قریبی علاقوں کے پرانے مکین شامل ہیں۔
حادثے کے پہلے موقف کے مطابق بشریٰ زیدی اور اُن کی بہن نجمہ کو کئی دیگر طالبات کے ساتھ کالج کے قریب سے سڑک عبور کرنے کی کوشش میں ایک تیز رفتار منی بس نے ٹکّر ماری اور جب یہ طالبات سڑک پر گر گئیں تو بریک لگتے لگتے بھی بس کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ یہ طالبات اُسی منی بس کے پہئیوں کے نیچے کچل گئیں۔
دیگر دستیاب معلومات کے مطابق بشریٰ زیدی اور اُن کی بہن ’ایکس تھری‘ روٹ کی منی بس میں سوار کالج جارہی تھیں اور کالج کے قریب ترین بس سٹاپ پر اترنا چاہتی تھیں، مگر دراصل منی بس اپنے ہی روٹ کی ایک اور منی بس سے ریس کررہی تھی۔
ریس کا مقصد تفریح نہیں لالچ تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنے کا موقع دوسری منی بس کو نہ مل سکے اور آگے رہنے والی منی بس زیادہ مسافروں کو سوار کرکے زیادہ کرایہ وصول کرسکے۔
اسی ریس میں ڈرائیور نے کالج کے قریبی سٹاپ پر نہ رکنا چاہا جہاں اُس وقت سوار ہونے والا کوئی مسافر نہیں تھا۔
ڈرائیور کی کوشش تھی دوسری منی بس سے پہلے اگلے سٹاپ پر پہنچ کر وہاں موجود مسافروں کو سوار کرلیا جائے۔
اس جلدی میں ڈرائیور نے منی بس کی رفتار بڑھائی مگر جب بشریٰ اور اُن کی بہن نجمہ سمیت دو اور طالبات نے بھی ڈرائیور اور کنڈیکٹر سے کہا انہیں تو یہیں کالج کے سٹاپ پر اترنا ہے تو ڈرائیور نے کہا کہ وہ منی بس روکے گا تو نہیں مگر رفتار بہت کم کرسکتا ہے تاکہ یہ طالبات چلتی منی بس سے ہی اتر جائیں۔
جب بس کی رفتار آہستہ ہوگئی تو بشریٰ سمیت کئی طالبات نے چلتی بس سے اترنے کی کوشش کی اور اسی کوشش میں بس سے اترتے ہی لڑکھڑا گئیں۔
پہلے بشریٰ اور پھر نجمہ لڑکھڑا کر سڑک پر گریں اور اس ہی منی بس کے پچھلے پہیوں سے کچل گئیں۔
نتیجے میں بشریٰ جسم کے اوپری حصّوں اور سر پر چوٹ کی وجہ سے موقع پر ہی دم توڑ گئیں جبکہ اُن کی بہن نجمہ کی ٹانگ پہیوں سے کچل کر ٹوٹ گئی۔
’اگر حادثے کے بعد ڈرائیور فرار نہ ہوتا اور پولیس اُسے گرفتار کرلیتی یا پھر ٹرانسپورٹ اتحاد کے رہنما و قائدین بشری زیدی کے خاندان سے فوری طور پر ہمدردی کا اظہار کرتے تو بھی شاید معاملہ سلجھ سکتا تھا۔‘ مقصود یوسفی نے کہا۔
ذرائع ابلاغ ہوں یا اہلِ علاقہ، اُس زمانے کے طلبا و طالبات ہوں یا صحافی و تجزیہ نگار، پولیس و انتظامیہ کے اہلکار ہوں یا سیاستدان، سب کے سب اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ کراچی میں اُس وقت شہریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز، مالکان، عملے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی مختلف تنظیموں کے درمیان ایک کشیدگی پہلے ہی سے موجود تھی۔
’مگر ویسی نمایاں نہیں تھی جیسی اس حادثے سے ہوگئی۔‘
پبلک ٹرانسپورٹ کے مسافروں میں سب سے زیادہ تعداد شہر کی قدیم اردو بولنے والی آبادی کی تھی جبکہ ڈرائیورز، عملہ (کنڈیکٹر ، کلینر وغیرہ) غیر مقامی تھے اور پشتو، کشمیری یا پنجابی بولتے تھے۔
شہر کے حالات، ثقافت اور مقامی آبادی کے طرز زندگی سے ناواقفیت کہہ لیجیے یا کم علمی یا پھر نئی جگہ کے اثرات یا کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی دھن، یہ گاڑیاں عموماً انتہائی لاپرواہی سے چلائی جاتی تھیں۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہو یا قواعد و ضوابط سے آگہی کی کمی ہو یا شہر کی ثقافتی زندگی سے ناواقفیت اس بنیاد پر مقامی شہریوں اور غیر مقامی ٹرانسپورٹرز کے درمیان اکثر چپقلش دکھائی دیتی تھی۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے عملے کے ارکان ڈرائیورز اور کنڈیکٹر وغیرہ کا طرز عمل اور مقامی شہریوں کی انا ہو یا رویّہ ان وجوہات کی بنا پر یا پھر کرائے، بد تہذیبی کی شکایات اور آئے دن رونما ہونے والے حادثات، سب نے مل کر مقامی شہریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے اس عملے اور شہریوں کے درمیان ایک خلیج قائم کردی تھی۔
یہ شکایات بھی عام تھیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے غیر مقامی ڈرائیورز، کنڈیکٹرز یا مالکان، مسافروں خاص طور پر خواتین سے بدسلوکی کرجاتے ہیں اور زیادہ پیسے کمانے کی اس دوڑ میں مقامی ثقافت متاثر ہورہی ہے۔
شہری اس بے ہنگم ٹریفک سے بہت نالاں تھے خصوصاً نوجوانوں میں تاثر عام تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران خواتین خصوصاً کم عمر اور نوجوان خواتین سے بدسلوکی اور بس تہذیبی روز کا معمول بن گئی ہے۔
اب چاہے اتفاق کہہ لیجیے کہ جس منی بس نے بشریٰ زیدی کو کچل کر ہلاک کردیا تھا اُسے بھی ایک پشتون (یا کشمیری) ڈرائیور ہی چلا رہا تھا۔
اسی لیے بشریٰ زیدی کے اس حادثے پر احتجاج کرنے والے ان طلبا و طالبات کے اس غم و غصّے اور اشتعال کا رُخ اچانک تبدیل ہوگیا اور مشتعل ہجوم میں پبلک ٹرانسپورٹ کے خلاف جاگ جانے والے جذبات اچانک ایک نیا رخ اختیار کرگئے۔
صحافی مقصود یوسفی نے کہا کہ ’یہ بدقسمتی تب بھی تھی اور اب بھی ہے کہ ہمارے ہاں (پاکستان میں) اس قسم کے واقعات کے بعد ذمہ دار (ڈرائیور یا اور ملزمان) یا تو ’فرار‘ ہوجاتے ہیں یا پھر فرار کروا دیے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ’ٹرانسپورٹ مافیا‘ بھی ایسا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد ڈرائیور فرار ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں ملی بھگت کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔
قوانین اور ضوابط یا تو تھے نہیں یا پھر درست طور پر نافذ نہیں تھے۔
’پولیس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ‘
ایک طرف تو بشریٰ زیدی کو کچلنے والا ڈرائیور بھی موقع سے ’فرار‘ ہوگیا اور دوسری جانب پولیس نے بھی ذمہ دار ڈرائیور کو گرفتار کرنے یا حادثے کے بعد کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے نہ تو مناسب اقدامات کیے اور نہ ہی مستعدی دکھائی۔
مقصود یوسفی نے کہا ’اگر بشریٰ زیدی کی اس المناک موت کا ذمہ دار ڈرائیور فرار نہ ہوتا یا پولیس معاملے میں سنجیدگی دکھاتی تو شاید اتنی تباہی و بربادی کی نوبت نہ آتی۔‘
بعض ذرائع نے دعویٰ کیا کہ حادثے کی وجہ بننے والی منی بس دراصل کسی پولیس افسر کی ملکیت تھی اور حادثے کے بعد ہونے والے احتجاج سے نمٹنے کی ذمہ دار پولیس کے افسران یہ بات جانتے تھے۔
اسی لیے پولیس کی جانب سے سنجیدہ کارروائی نہیں کی گئی یا جانبداری کا برتاؤ کیا گیا۔
لیکن اب اتنے عرصے بعد آزاد ذرائع سے ان دعووں کی آزادانہ تصدیق یا تردید قریباً ناممکن ہے۔
صحافی تنویر خان کا کہنا ہے کہ دراصل ٹرانسپورٹ سے متعلق قوانین اور قواعد و ضوابط یا تو بہت نرم تھے یا پھر اُن پر عملدرآمد کا طریقۂ کار ایسا تھا کہ ٹریفک حادثوں کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا نہیں مل پاتی تھی۔ ’اور ٹریفک حادثے جرمِ اتفاقی کے زمرے میں تھے ایسے مقدمات میں سزا کا امکان نہ ہونے کے برابر اور جرمانہ بہت معمولی ہوتا تھا۔‘
حادثے کے بعد شدید ردّعمل اور احتجاج کیسے منظم ہوا؟
سر سیّد کالج کی ایک سابق طالبہ عظمیٰ ندیم کا کہنا ہے کہ کالج کے آس پاس کئی اور تعلیمی ادارے بھی واقع تھے۔
’بالکل ہی برابر میں گورنمنٹ گرلز کالج کی عمارت تھی، ذرا ہی فاصلے پر عثمانیہ کالج تھا، کچھ ہی دور طلبا کے لیے مخصوص سٹی کالج اور سے چند سو گز دور مخلوط تعلٰیمی ادارہ پریمیئر کالج اور پھر سڑک کے عین دوسری جانب طلبا کا گورنمنٹ کالج فار مین تھا۔
یعنی ایک ہی سڑک پر پانچ اور دوسری طرف چھٹا کالج تھا۔ آس پاس کئی سکول بھی تھے جن میں طلبا و طالبات دونوں ہی زیر تعلیم تھے۔
عظمیٰ ندیم کی ایک اور ہم جماعت سیما رضوی کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے تمام ہی تعلیمی اداروں سے طلبا و طالبات ہزاروں کی تعداد میں سرسیّد گورنمنٹ گرلز کالج کے سامنے عین جائے حادثہ پر جمع ہوگئے۔
سر سیّد کالج کی ایک سابق طالبہ سیما مسعود کے مطابق ’ان ہزاروں طلبا و طالبات کی اکثریت قریبی علاقوں ناظم آباد، رضویہ، پاپوش نگر، نارتھ ناظم آباد، حیدری اور دیگر علاقوں سے ان تعلیمی اداروں میں آتی تھی لہٰذا یہ خبر اُن علاقوں میں بھی چشمِ زدن میں پہنچ گئی۔‘
چونکہ موبائل یا ڈیجیٹل کمیونیکیشن (یا بے تار پیغام رسانی) کا تو تصوّر بھی نہیں تھا نہ فونز تھے، نہ انٹرنیٹ اور نہ ہی ٹی وی کے لائیو نیوز چینلز۔
’لہٰذا پریشان حال والدین یا طالبات کے بھائی بہن اور دیگر اہل خانہ اس صورتحال میں پھنس جانے والی اپنی بچیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے کالج کے مرکزی دروازے پر جمع ہونا شروع ہوئے اور یوں کچھ ہی دیر میں ایک اتنا بڑا مجمع جمع ہوا جس سے نمٹنا اس صورتحال میں قطعاً آسان نہ رہا۔‘
ڈاکٹر شگفتہ ناز نقوی اب امریکہ میں مقیم انتہائی مصروف ڈاکٹر ہیں بشریٰ زیدی کے حادثے کے وقت وہ سرسیّد کالج کی ممتاز طالب علم رہنما تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب یہ واضح ہوگیا کہ ہلاک ہونے والی طالبہ بشریٰ زیدی کا تعلق بھی سرسیّد کالج سے ہی ہے تو کالج کی انتظامیہ کے بعض اراکین نے خود بھی طالبات کو باہر جانے اور احتجاج میں شامل ہونے کی ترغیب یا موقع دیا۔
ڈاکٹر شگفتہ نقوی نے کہا ’ہمیں تو خود تب کہا گیا کہ جاؤ باہر جاکر دیکھو۔ تب تک بے انتہا ہجوم کالج کے سامنے اور آس پاس کی سڑکوں ہو جمع ہوچکا تھا۔‘
ڈاکٹر شگفتہ کے مطابق ساتھی طالبہ کی اس المناک ہلاکت اور بے ہنگم پبلک ٹرانسپورٹ کی اس لاپرواہی کے خلاف اس ہجوم نے احتجاجاً سڑک پر دھرنا دے دیا۔
اُس وقت قریبی علاقے رضویہ کے مکین ڈاکٹر ناصر نقوی بھی اب امریکہ ہی میں مقیم ہیں۔
ڈاکٹر ناصر تب شہر کے جنوبی علاقے میں واقع آدم جی سائنس کالج میں زیر تعلیم تھے۔
’جب ہمیں اطلاع آئی کہ سرسیّد کالج کی کسی طالبہ کی کسی حادثے میں ہلاکت ہوئی ہے تو میں سر سیّد کالج میں زیرِ تعلیم اپنی بہن کی تلاش میں بڑی پریشانی کی حالت میں بھاگا بھاگا وہاں پہنچا۔‘
بشکریہ: بی بی سی اردو