عورت کیلیئے باہر نکل کر کمانا کبھی بھی اور کسی بھی دور میں آسان نہیں رہا ہے۔ کبھی وہ گھر والوں کی پابندیوں میں جکڑی ہوتی ہے تو کبھی شوہر اور بچوں کی، اور سب سے بڑھ کر دنیا والے جو اکیلی کمانے والی عورت کو ایسی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسے اس نے کوئی گناہ کردیا ہو۔
آج ہم آپ کو ایک ایسی با ہمت اور بہادر خاتون کی کہانی بتانے جارہے ہیں جس نے نہ صرف دنیا کا سامنا کیا بلکہ کینسر جیسے مرض کو بھی ہرادیا۔
یہ کہانی ہے کراچی سے تعلق رکھنے والی صفیہ سہیل کی، جو اب ایک دکاندار ہیں۔
صفیہ اپنی زندگی کا قصہ سناتے ہوئے بتاتی ہیں کہ، جب میں میٹرک کلاس میں تھی اس وقت میری ٹیچر نے پوچھا تھا کہ تم آگے جا کے کیا کرو گی؟ جس پر میں نے جواب دیا "کچھ نہیں"، اور اس پر حیران ہوئیں کیونکہ میں پڑھائی میں بہت اچھی تھی اور میری استانی کو مجھ سے بہت امیدیں تھیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تم ٹیچر بن جانا، جس پر میں نے کہا کہ ٹیچنگ میں کبھی نہیں کروں گی مجھے پسند نہیں۔
پر وقت اور حالات اس طرح بدلے کہ میٹرک کے بعد گھر کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے جاب کرنی پڑی، اور تب میں نے ٹیچنگ کا شعبہ چُنا۔ اور 2014 میں، جب میں نے نوکری چھوڑی تو اس وقت گھر میں رہتے ہوئے مجھ میں میرا پرانا شوق جاگ اٹھا، موتیوں اور دھاگو سے ڈیزائن بنانے کا۔
میں گھر میں رہ کر یہ کام کرنے لگی اور جب کبھی کہیں کوئی ایونٹ ہوتا تو وہاں اسٹال لگاتی، لوگوں کو میری ہوئی چیزیں اچھی لگتیں۔ پھر مجھے چھوٹے موٹے آرڈر ملنے لگے، جس کے بعد تھوڑی بہت کمائی ہونے لگی اور میں نے ایک دکان کھولنے کا فیصلہ کیا۔
دکان کھولے تھوڑا ہی وقت ہوا تھا کہ کرونا آگیا اور سب بند ہوگیا، وہ بھی ایک مشکل وقت تھا۔ اس دوران مجھے پیٹ میں درد رہنے لگا ، جب چیک اپ کرایا تو معلوم ہوا کہ مجھے بڑی آنت کا کینسر ہے۔ یہ وہ بیماری تھی جس کا نام سن کر میں ہمیشہ سے ڈرا کرتی تھی اور مجھے لگتا تھا جس کو یہ بیماری ہوجائے وہ بچتا نہیں ہے۔ پر میں نے ہمت سے کام لیا اور اللّٰہ پر بھروسہ رکھا، جس کے بعد اللّٰہ نے مجھے اس کینسر سے لڑنے کی طاقت دی اور میں نے اسے ہرا دیا۔ ٹھیک ہونے کے بعد میں نے اپنی دکان پھر سنبھالی، اور اللّٰہ کا شکر ہے کہ اب کمائی بھی ہوجاتی ہے۔
لوگوں کے رویوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ، لوگ مجھے میرے منہ پر پاگل کہتے تھے یہاں تک کہ بچے بھی، مجھے بہت برا لگتا تھا میں روتی تھی۔ تب مجھے کسی نے کہا کہ جس کو لوگ پاگل کہتے ہیں اسے اللّٰہ زیادہ محبت کرتا ہے اور اپنے قریب رکھتا ہے، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اب مجھے کوئی پاگل کہتا ہے تو میں ہنس کے اسکا شکریہ ادا کرتی ہوں۔