سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والی پانچ شیر بہنیں: ’ہماری ہر ایک بیٹی 500 بیٹوں پر بھی بھاری ہے‘

image
صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع ہری پور کے ملک رفیق اعوان اور خورشید بیگم کی پانچویں بیٹی ضحیٰ ملک شیر بھی اب پاکستان کی سول سروس کا حصہ بن گئی ہیں۔ ایسی مثالیں بہت ہی کم ہوں گی کہ پانچ بہنوں نے

ایک ایک کر کے اعلیٰ حکومتی سروس کا امتحان پاس کیا ہو۔ پاکستان میں بدھ کو 2019 میں دیے گئے سی ایس ایس کے امتحانات کا حتمی نتیجہ سامنے آیا تو کامیاب ہونے والے امیدواروں میں ایک نام ایسا بھی تھا جس کے لیے پاکستان کی سول سروس میں نوکری گھر کی سی

بات بن گئی ہے۔

پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹی ضحیٰ ملک شیر پاکستان میں سینٹرل سپیریئر سروس کے امتحان کو پاس کر کے پاکستانی سول سروس کا حصہ بننے والی اس خاندان کی پانچویں رکن ہیں۔

ان سے قبل ان کی چاروں بہنیں بھی سی ایس ایس کرنے کے بعد مختلف سرکاری عہدوں پر کام کر رہی ہیں۔

شیر بہنوں کی کہانی

ان پانچوں بہنوں کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور سے ہے اور ملک رفیق اعوان اور خورشید بیگم کی ان پانچوں بیٹیوں نے راولپنڈی کے کانونٹ سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی سکول ہے

جہاں پاکستان کی سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو نے بھی اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ سب سے بڑی بہن لیلیٰ ملک شیر نے سنہ 2008 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا اور اس کامیابی نے ان کی چھوٹی بہنوں کو وہ راہ دکھائی کہ ہر دو سے تین سال بعد ایک بہن سی ایس ایس کے امتحان میں

کامیابی حاصل کرتی چلی گئیں۔

لیلیٰ ملک شیر اس وقت کراچی میں انکم ٹیکس کے محکمے میں ڈپٹی کمشنر کے فرائض ادا کر رہی ہیں۔

انھوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد 21 سال اور کچھ دن کی عمر میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے پاکستان کی سب سے کم عمر سی ایس پی افسر بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

لیلیٰ نے مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انگریزی ادب میں ایم اے کیا تھا۔

اس کے بعد شیریں ملک شیر کی باری آتی ہے جو آج کل نیشنل ہائی وے اتھارٹی اسلام آباد میں ڈائریکٹر ہیں۔

تیسری بہن سسی ملک شیر ڈپٹی ایگزیکٹو سی ای او چکلالہ کینٹ راولپنڈی ہیں اور پھر ماروی ملک شیر جو بطور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ایبٹ آباد فرائض ادا کر رہی ہیں۔

ضحیٰ ملک سب سے چھوٹی بہن ہیں اور 17 جون کو جاری کیے جانے والے نتائج کے مطابق وہ آفیسرز مینجمنٹ گروپ میں شمولیت اختیار کریں گی۔

ضحیٰ زمانہ طالب علمی میں کالج نیٹ بال کی کپتان اور سٹوڈنٹس کونسل کی صدر بھی تھیں۔ انھوں نے نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد سے بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ میں ماسٹرز بھی کیا ہے۔

ضحیٰ نے بی بی سی سےبات کرتے ہوئے کہا کہ ’بچپن ہی سے ہمیں ہماری والدہ اور والد نے بتایا تھا کہ ہمیں خودمختار بننا ہے اور ہماری تعلیم و تربیت پر بہت محنت کی۔‘

’جب میری بڑی بہن لیلی ملک شیر نے سی ایس ایس پاس کیا اور انھیں دیکھا تو اس سے مجھے بھی لگا کہ مجھے بھی ایسا بننا ہے۔‘

اس سے قبل، ضحیٰ ریڈیو اسلام آباد کے ایک پروگرام ’رابطہ‘ میں اینکر کے فرائض انجام دیا کرتی تھیں جہاں پر خواتین اور مختلف لوگ انھیں ٹیلی فون کر کے اپنے مسائل بتایا کرتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت ہی سوچ لیا تھا کہ اگر ایک ریڈیو پروگرام سے اس طرح لوگوں بالخصوص خواتین کے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو یقیناً سول سروس میں شمولیت اختیار کر کے میں بہت کچھ کر سکتی ہوں۔ انھوں نے اپنے والدین کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بچپن ہی سے ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم نے دنیا میں کچھ کرنا ہے۔ کچھ ایسا کرنا ہے جو یاد رہ جائے۔

’خود کو خود مختار بھی بنانا ہے اور ملک وقوم کی بھی خدمت کرنی ہے۔‘

اسی لیے میرے والدین شروع سے یہی کہا کرتے تھے کہ ہم بہنوں کو سی ایس ایس افسر بننا چاہیے کیونکہ اس میں کام کرنے کے بہت مواقع ہیں بلکہ صلاحیتوں کا صحیح طور پر اظہار بھی ہو سکتا ہے۔

’پانچ بییٹوں کی پیدائش پر افسوس کرنے والے آج مبارک باد دے رہے ہیں‘

ان بچیوں کے والد ملک رفیق اعوان واپڈا سے ایس ڈی او ریٹائرڈ ہیں۔ ان کی آبائی رہائش تو ضلع ہری پور میں ہے مگر ایک عرصے سے وہ راولپنڈی میں مقیم ہیں۔

گذشتہ شام جب سی ایس ایس کے کامیاب امیدواروں کے نتائج کا اعلان ہوا تو ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو ان کا ٹیلی فون تقریباً دو گھنٹے تک متواتر مصروف تھا۔

جب ٹیلی فون ملا اور ان سے بات چیت شروع ہوئی تو انھوں نے خود ہی بتایا کہ آج بڑا عجیب اور خوشی کا بہت بڑا دن تھا۔

وہ بتانے لگے کہ ’جب میری پانچویں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اس وقت میرے رشتہ داروں نے ہم لوگوں کو مبارک باد دینے کی جگہ ہم دونوں سے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اس مرتبہ بھی بیٹا نہیں ہوا ہے۔

’بیٹی پر ہمیں تو کوئی غم نہیں تھا مگر عزیزوں رشتہ داروں کے رویہ پر کچھافسوس ضرور ہوا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ آج جب کئی سال بعد میری پانچویں بیٹی نے بھی سی ایس ایس کا امتحان پاس کر لیا ہے تو رشتہ دار مبارک باد دینے کے لیے ٹیلی فون پر ٹیلی فون کر رہے ہیں اور گھر میں مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔

’اکثریت وہی لوگ ہیں جو پانچ بیٹیوں پر کھلے یا ڈھکے چھپے انداز میں ہم سے افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے۔‘

ملک رفیق اعوان کو اس رویے کا سامنا ان کی پہلی بیٹی کی پیدائش ہی سے تھا۔ تاہم جب ان کی دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو اس وقت ان کے والد شیر محمد حیات تھے۔

انھوں نے بتایا کہ اس موقع پر کسی نے بڑے عجیب سے لہجے میں کہا کہ رفیق کی دوسری بیٹی پیدا ہوئی ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’یہ بیٹیاں نہیں بیٹے ہیں۔‘

’جس پر اسی وقت میں نے اپنے دونوں بیٹیوں کے نام کے ساتھ اپنے نام کی جگہ پر ان کے دادا شیر کا نام لگایا تھا اور باقی بیٹیوں کے ساتھ بھی اسی طرح کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میری چار بیٹیوں کے نام افسانوی کرداروں لیلیٰ، شیریں، سسی، ماروی کے ناموں پر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے پیچھے بھی خواہش تھی کہ میری یہ بیٹیاں ملک و قوم کے لیے ایسا کام کریں گی جس میں ان کی شہرت ہو گی جبکہ پانچویں بیٹی ضحیٰ کا نام قران سے لیا گیا ہے جس کا مطلب روشنی کا

آغاز ہے۔

’ایسا شاید اس لیے کیا تھا کہ اس کی پیدائش کے موقع پر لوگوں کا رویہ کچھ زیادہ ہی برا تھا مگر میرے لیے تو وہ بہت قیمتی اور روشنی ہی کی طرح تھی۔‘

’بچپن ہی سے سی ایس پی افسر بننے کی طرف راغب کیا‘

ملک رفیق اعوان کا کہنا تھا کہ میری دوران ملازمت مختلف مقامات پر تبادلے ہوتے رہے تھے مگر بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے میں نے راولپنڈی ہی میں رہائش رکھی تھی تاکہ یہ متاثر نہ ہوں۔

’ان کے ساتھ جب بچپن میں بھی بات ہوتی تو ہم دونوں کہا کرتے تھے کہ سی ایس ایس کرنا ہے۔‘

ملک رفیق اعوان نے اپنی بڑی بیٹی لیلیٰ ملکشیر کے حوالے سے سکول کا واقعہ بتایا کہجب وہ پہلیکلاس میں تھیں تو وہ سکول میٹنگ میں گئے۔ انھیں لیلیٰ کی ٹیچر نے بتایا کہ کلاس میں ایک مرتبہ انھوں نے لیلیٰ سے پوچھا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گی تو اس پر لیلیٰ نے جواب دیا کہ اے سی۔ جس پر ٹیچر نے کہا کہ کون سی اے سی یہ جو کمرے میں لگے

ہوئے ہیں تو لیلیٰ نے بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ نہیں اسٹنٹ کمشنر۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بچوں کو پتا چل گیا تھا کہ ہم ان کی تعلیم، تربیت اور بہترین مستقبل کے لیے کوشاں ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایک وقت ایسا تھا جب میری پوسٹنگ جہلم میں تھی اور میں اپنے ایک ایس ڈی او دوست کے ہمراہ راولپنڈی واپس آ رہا تھا تو راستے میں تاخیر ہو گئی اور گھر پہچتے پہچتے رات کے 12 بج گئے۔

’ابھی میں گھر کے اندر داخل ہوا تو میری تیسری بیٹی سسی ملک شیر میری پاس آئی اور کہا کہ یہ کتابیں لینی ہیں لازمی۔ ’جس پر میں نے آؤ دیکھانہ تاؤ اس سے کہا کہ گاڑی میں بیٹھو۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ دکان کھلی ہو گی۔ خوش قسمتی سے دکان کا کچھ سامان آیا تھا اس کی ان لوڈنگ ہورہی تھی تو دکان کے مالک سے گزارش کی

تو انھوں نے وہ کتابیں ہمیں لادی تھیں۔ ملک رفیق اعوان کہتے ہیں کہ میرا وہ دوست اب کینیڈا میں ہوتا ہے اور وہ اکثر فون پر اس واقعے کو یاد کرتا ہے اورکہتا ہے کہ میں اب اپنے تمام ملنے جلنے والوں کو بتاتا ہوں کہ اگر اپنے بچوں کو بہترین مسقبل

دینا ہے تو ماں باپ کو ہر صورت میں بچوں کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ وہ ان کے اچھے مسقتبل کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

وہ کہتا ہے کہ یہ ہی وجہ ہے کہ میری پانچوں بیٹیاں اب سی ایس ایس افسر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں تھا کہ ہماری طرف سے کوئی پابندی تھی کہ وہ سی ایس ایس ہی کریں مگر ہم یہ چاہتے ضرور تھے کہ ان کو بچپن ہی میں کوئی لائن مل جائے تاکہ یہ اس کے مطابق تیاری کر سکیں۔

’پھر ایسے ہی ہوا انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ہی سے اپنےمستقبل کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس کے مطابق اپنی تیاری کی، محنت اور کامیابی حاصل کرلی ہے۔‘

پڑھائی پر کوئی سمجھوتہ نہیں تھا

ملک رفیق اعوان بیٹیوں کی کامیابی کو بھی اپنی اہلیہ کی انتھک محنت اور لگن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ملک رفیق اعوان بتاتے ہیں کہ بچپن میں بیٹیوں کو کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی اور اس کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ انھوں نے بتایا کہ بچیوں کی پڑھائی اور ان کے معاملات کو ان کی والدہ خورشید بیگم دیکھا کرتی تھیں۔ میں خود تو ملازمت کے لیے مختلف شہروں میں مقیم رہا کرتا تھا مگر ان کی والدہ تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں

کرتی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر میں گھر پر ہوتا تو کہتا کہ چھوڑو پڑھائی وغیرہ تو ان کی والدہ ناراض ہوتی تھی۔

’جب ہم دونوں خریداری وغیرہ کے لیے باہر جاتے تو ان کو کام دے کر جاتے تھے۔ مگر ظاہر ہے بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ یہ پڑھائی وغیرہ چھوڑ چھاڑ کھیل کود میں مصروف ہو جاتے تھے۔‘

ملک رفیق اعوان کا کہنا تھا کہ مگر جب ہم گھر واپس آتے تو یہ ایک دم ایسے بن جایا کرتی تھیں جیسے ہمارے پیچھے بہت اچھے سے پڑھائی کررہی ہوں۔

’مگر ہمیں تو سمجھ آجاتی تھی جس پر ان کی والدہ ان کو ڈانٹ پلاتی تھی۔ اس وقت بڑی بیٹی نے کتا رکھا ہوا تھا۔ وہ کتا بھی سمجھ جایا کرتا تھا کہ غلط ہوا ہے وہ بھی ڈر کے مارے بیڈ کے نیچے چھپ جاتا تھا۔‘

‘ایک ایک بیٹی پانچ پانچ سو بیٹوں پر بھی بھاری ہے‘

بچیوں کی والدہ خورشید بیگم کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو بڑے طریقے سے تعلیم اور محنت کی طرف راغب کیا تھا۔

’بچپن میں پڑھائی کے لیے ایسا ہوتا تھا کہ میں ان کو کہتی تھی کہ جلدی سے ہوم ورک ختم کر لو اور جو پہلے ہوم ورک کرے گا اس ہی کو سائیکلنگ کی اجازت ملے گی۔‘

’پھر ان کو سبق جلدی یاد کرنے پر چاکلیٹ یا کوئی اور چیز دلانے کا لالچ دیتی تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ کبھی بھی پڑھائی اور پھر ہوم ورک پر کوئی سمجھوتہ نہیںکیا۔ ان کا کلاس ورک چیک کرتی، ہوم ورک میں مدد کرتی تھی۔کلاس ورک اور ہوم ورک یاد کرنے کے لیے دیتی تھی پھر سنتی تھی۔ جب

ہر سال سالانہ چھٹیاں ہوتیں تو ان کو آگلے کلاس کا کورس خود پڑھاتی تھیں جب یہ کلاس میں جاتیں تو بہت کچھ ان کو آتا ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری بلکہ ہم دونوں کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف بچیوں کا بہتر مستقبل تھا جو کہ ہماری ذمہ داری تھی۔ ساری زندگی کبھی بھی تعلیم و تربیت کے علاوہ کسی اور وجہ سے ڈانٹ ڈپٹ نہیں

کی تھی۔ ہمیشہ رات کو بیٹھ کو ان کے ساتھ پڑھائی کے علاوہ بات چیت ہوتی تھیں۔

ان کو بڑے لوگوں کے مختلف واقعات سناتی تھیں۔ ان کی بات سنتی تھی۔ ان کے مسائل کو اگر کوئی ہو تو سمجھنے کی کوشش کرتی اور ان کو حل کرتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ خود بھی بہت محنت کرتی تھیں۔ ہمیشہ اچھے نمبر لیتی تھیں۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ خورشید بیگم کا کہنا تھا کہ سب والدین کو چاہیے کہ بیٹوں پر بیٹیوں کو ترجیع نہ دیں۔ کبھی بھی نہیں، بیٹیوں کو اچھی تعلیم دلائیں۔ بیٹیوں کو اگر والدین اعتماد دیں گے تو وہ بہت کچھ کردکھائیں گئیں جس کی کوئی توقع

بھی نہیں کرسکتا۔ زوہا ملک کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر کا ماحول شروع ہی سے تعلیمی تھا۔ ہم اکثر بہنیں دنیا بھر کے موضوعات پر بات کرتی تھیں اور اب بھی کرتی ہیں۔ جس میں بین الاقوامی معاملات،خواتین کا کردار یہ سب معلوماتی

بحثیں ہوتی ہیں جس سے اب بھی ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔

ملک رفیق اعوان کا کہنا تھا کہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے معاشرے کو سمجھنا ہوگا کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں بلکہ یہ انتہائی کارآمد ہوتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو اعتماد دیا جائے، تعلیم دلائی جائے، بتایا جائے کہ انھوں نے اپنے مستقبل کے علاوہ ملک قوم کے لیے کام کرنا ہے۔

’ہم دونوں میاں بیوی نے یہی کیا ہے۔ کبھی نہیں سوچا کہ بیٹا نہیں ہے تو کوئی کمی ہے۔ بس اپنی بیٹیوں پر توجہ مذکور رکھی۔

’اب ہماری ایک ایک بیٹی پانچ پانچ سو بیٹوں پر بھی بھاری ہے۔ انھوں نے وہ کر دکھایا جو بیٹے بھی کم ہی کرتے ہیں۔‘

You May Also Like :
مزید