میری بیٹی مجھے لوٹا دو ۔۔ دعا زہرہ کا واقعہ کیوں ہوا اور اس میں ماؤں کا کردار کیا ہے؟

image

دعا زہرہ کی گمشدگی اور ملنے کا سارا واقعہ ایک ڈرامائی کہانی معلوم ہوتا ہے۔ کبھی والدین کہہ رہے ہیں کہ بچی 14 سال کی ہے، کبھی وہ کہہ رہے ہیں کہ بچی 12 بجے کے وقت گھر سے نکلی، کہیں تفتیش میں بتایا جا رہا ہے کہ بچی کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان ہے تو کہیں دعا کے مبینہ شوہر ظہیر کی والدہ کہہ رہی ہیں کہ بچی خود ٹیکسی میں بیٹھ کر ہمارے پاس آئی تھی، جس پر ہم نے اس کو کہا تھا کہ یہ کیا کر کے آگئی ہو تم۔ اس پر دعا نے کہا کہ میرے والدین نہیں مانیں گے، اس لیے میں آگئی ہوں۔ جس کے بعد دونوں کا نکاح کروانا پڑا اور ہم نے خود بچی کو حفاظت سے رکھا۔ لیکن ایک طرف کورٹ میں دعا اپنے والدین سے ملنے کے لیے منع کرکے کہتی ہے مجھے ظہیر کے ساتھ جانا ہے تو دوسرے دن اس کی 5 منٹ کے لیے والدین سے ملاقات کروائی جاتی ہے۔ دعا کی والدہ بیٹی سے ملنے کے تڑپ رہی ہیں، اس سے 5 منٹ کی ملاقات میں ماں نے کئی انکشافات کیے، اس سب کے بعد اب کورٹ نے دعا کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ کس کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔

اس واقعے کا حال اور ماضی تو سب کی نظروں کے سامنے ہے۔ سب نے اس کو اپنے حساب سے دیکھا اور پرکھا ہے۔ مگر ایک بات جو سوچنے والی ہے وہ یہ کہ اس قسم کے واقعات میں جبکہ لڑکی گھر سے بھاگ جائے اور وہ خود کہے کہ مجھے والدین سے نہیں ملنا، ان کے ساتھ نہیں رہنا ہے، شوہر کے ساتھ جانا ہے، میرے والدین نہیں مانیں گے۔ ان کیسز میں لڑکیوں کی ماؤں کا اصل کردار کیا ہے؟ اگر دعا گھر سے اغواء کی جاتی تو یقیناً محلے میں کسی کو معلوم چلتا، اگر گلی سے اٹھائی جاتی تو کیمرے کی فوٹیجز مل جاتیں یا پھر کوئی شخص تو ہوتا جو دیکھتا۔ ثبوت تو یہی بتا رہے ہیں کہ بچی خود مرضی سے گئی ہو۔

بیٹیوں کی تربیت میں سب سے بڑا اور اہم کردار ماں کا ہوتا ہے۔ ماں اگر بچیوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھے اور انہیں یہ اجازت دے کہ وہ اپنی ہر بات شیئر کریں، مل بانٹ کر معاملات میں چلیں تو یقیناً ان حالات کی نوبت نہ آئے۔ ہمارے ہاں اس وقت معاشرے میں یہ زیادہ سے زیادہ دیکھا جا رہا ہے کہ مائیں اپنی بچیوں کی نگرانی بذاتِ خود نہیں کر رہی ہیں، وہ بیٹیوں کو وقت نہیں دے رہی ہیں۔ ان سے باتیں نہیں کر رہی ہیں، ان کو اچھے برے حالات میں یہ نہیں بتایا جا رہا کہ آپ کو خود کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ کسی بھی تربیت میں اگر مار پیٹ یا غصہ مثبت کردار ادا کرتا تو یقیناً ہر والدین بچوں کو مارنے سے مطلب رکھتے۔ مائیں عموماً بچوں کو کم مارتی ہیں، لیکن مار پیٹ یا غصہ کرنا ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا ہے۔ بیٹی کو ماں کے لیے کھلی کتاب کی طرح ہونا چاہیے کہ وہ کب کہاں کیسے اور کیا کر رہی ہے، ماں کو سب کچھ معلوم ہونا چاہیے۔ اس سے صرف گھر کا ہی ماحول اچھا نہیں ہوتا بلکہ ساتھ ساتھ معاشرہ بھی اچھائی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔

اگر آپ ایک ماں ہیں تو اپنی بیٹی کو کھلے ذہن سے بیشک زندگی میں آگے بڑھنے دیں، لیکن اس کے ساتھ ایک دوست والا رویہ رکھیں۔ لڑکیاں اکثر اپنی باتیں چھپا لیتی ہیں کہ گھر والے ڈانٹیں گے اور کسی سے نہیں کہتی ہیں، بس سہیلیوں میں بات کرتی ہیں جس سے کم ذہن سہیلیاں ان کو جو سمجھاتی ہیں وہ ان کو اچھا لگنے لگتا ہے، جبکہ ہر وقت سہیلی کی رائے درست نہیں ہوتی ہے۔ اگر یہی سہیلی ایک ماں ہوگی تو ماں کبھی اولاد کے لیے غلط فیصلہ نہیں لے گی۔

آپ غور کریں ایسے جتنے بھی کیسز سامنے آئے ہیں، والدین کی آپس میں تلخیاں یا ماؤں کی بچوں کی نفسیات سے آگاہی نہ ہونا ہی وجہ سامنے آئی ہے جوکہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے میں اگر ایک ماں پورے دن کے کاموں کے ساتھ ساتھ بچوں کو 1 گھنٹے کا وقت بھی خود کے ساتھ بات کرنے کے لیے دے اس سے بچوں میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے اور ان کو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہو جائے گی یا کسی بھی معاملے میں آگے چل کر کچھ مسئلہ پیدا ہونے کے شکوک و شبہات ہوں گے تو کم از کم ان کو یہ تو خیال ہوگا کہ امی ہیں نا! وہ سن لیں گی، وہ سمجھ لیں گی۔ یہ سب سے بڑا سکون ہوتا ہے کسی بھی اولاد کو کہ امی ہیں نا وہ سمجھ جائیں گی ہماری بات۔

اگر ہر ماں بچوں کو یہ سکون دے تو گھر خراب نہ ہوں۔ اگر بات بچیوں کی پسند کی شادی کی ہے تو اس کا حق تو کسی بھی بالغ بچی کو ہے کہ وہ اپنی مرضی کا اظہار کرے، یہ تو ہمارا مذہب بھی اجازت دیتا ہے۔ لیکن اگر لڑکا کسی بھی لحاظ سے ٹھیک نہ ہوں، اس میں عیب ہوں تو گھر والوں کا فرض بنتا ہے کہ بچی کو سکھائیں، سمجھائیں، اس کے ساتھ بیٹھ کر نرم لہجے میں معاملات کو سلجھایا جائے۔ ہر گز وہ معاملہ نہیں سدھرے گا جس میں کسی بھی ایک فریق کی آواز اونچی ہو، چیخنا چلانا، رونا، پیٹنا اور ہنگامہ ہو۔ پھر ماں کی آواز اونچی ہو اور بیٹی کے دل کی بات ماں ہی نہ سمجھے تو بیٹیاں کیا کریں گی؟

جوانی میں اکثر بچے غلطیاں کر دیتے ہیں، لیکن ان کی غلطیوں پر دل بڑا کرنا ماں اور باپ دونوں کا کام ہے۔ دعا کیس میں اس کی والدہ پر سوالات نہیں اٹھا رہے مگر ایک ذہنی قیاس ہے۔ صرف دعا ہی نہیں ہر وہ لڑکی جس سے بھاگنے کا رویہ اختیار کیا، ان میں سب سے پہلا سوال ماں پر ہی آتا ہے۔ ماں کو بچوں اور گھر کو ایک ترازو کے پلڑے میں باندھ کر رکھنا چاہیے، اسی طرح گاڑی آگے بڑھے گی ورنہ سوالات کی کڑیاں مضبوط ہوتی جائیں گی۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں رشتوں کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں، آپس میں ملاقاتوں کے سلسلے کم ہو رہے ہیں۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک فون کرکے بلایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اس وقت بچوں کی دیکھی گئی ہر ایک ویڈیو، ہر ایک ڈرامہ، ہر گیم یہاں تک کہ بچے نے کس وقت کس شخص سے کیا بات کی ہے یہ غور کرنا گھر والوں کا کام ہے۔ جب والدین یہ جانتے ہیں کہ ایک چیز فائدے سے زیادہ نقصان دہ بھی ہے تو اس پر نگرانی کی گرفت مضبوط کرلیں تاکہ آپ کو خود بھی حالات سے آگہی رہے اور بچوں کی تربیت مثبت انداز سے کرنے میں مدد ملے۔

You May Also Like :
مزید