ترکیہ میں کل آنے والے شدید زلزلے نے وہاں بری طرح تباہی مچادی ہے، ہر جگہ بس ملبہ اور کھنڈرات ہی نظر آرہے ہیں۔ ترکیہ کی اس تباہی پر جہاں پوری دنیا افسوس کر رہی ہے وہیں زلزلے نے بہت سی زندگیوں کو بھی نگل لیا ہے، اور نہ جانے اموات کا سلسلہ کب اور کہاں جا کے رکے گا۔
لیکن اس صورتِ حال میں بھی ہمیں انسانیت کی اعلیٰ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں، آئیے آپ کو بتاتے ہیں
ترکیہ کے شہر اسکندرون میں ریسکیو ٹیمیں ایک سرکاری اسپتال کے کھنڈرات کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا کچھ حصہ پیر کو آنے والے تباہ کن زلزلے سے زمیں بوس ہوگیا تھا جس میں تقریباً 4,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امدادی کارکن جب ملبے کے ڈھیر سے زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں کو نکال کر ہسپتال لے کے گئے تو پتا چلا کہ اسکندرون اسپتال بھی تباہ ہوچکا ہے۔ امدادی کارکنوں نے وہاں کاروائی شروع کی اور اس مقام پر بارش اور سرد موسم کے باوجود جہاں روشنی کے لیے جنریٹر استعمال کیے گئے تھے، لوگوں کے زندہ بچ جانے کی امید کر رہے تھے۔
تیس سالہ ایک ڈاکٹر خاتون ٹولن نےکہا کہ، ہمارے پاس ایک مریض ہے جسے آپریٹنگ روم میں لے جایا گیا تھا، لیکن ہم نہیں جانتے کہ کیا وہ بچ سکا یا نہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ آج میری خالہ سمیت تین رشتہ دار کھو گئے۔ میرے چچا ملبے تلے دبے ہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ خیریت سے ہوں۔ ڈر ہے کہ ہم انہیں بھی کھو نہ دیں۔
انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ایک نرس جن کا نام میرف تھا بتایا کہ، "وہ رات کی شفٹ پر تھیں جب صبح سے پہلے زلزلہ آیا۔ اچانک، عمارت لرزنے لگی اور زلزلے کے جھٹکے آہستہ آہستہ بڑھنے لگے۔ میں اور میرے دوستوں نے عمارت سے نکلنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ہم نے اپنے مریضوں کو اکیلا چھوڑا۔ پھر ہم نے ایک خوفناک شور سنا، عمارت گررہی تھی۔
انھوں نے مزید کہا کہ، "سیڑھیوں کو نقصان پہنچ چکا تھا، ہم عمارت سے باہر نہیں نکل سکتے تھے کیونکہ راہداری ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی لیکن بالآخر ہمیں بچا لیا گیا۔ پر عمارت کے دوسرے حصے میں اس کے ساتھی اور مریض اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ وہ ملبے تلے دب چکے ہیں۔15 گھنٹے گزر چکے ہیں، لیکن میں اپنے کسی ساتھی سے رابطہ نہیں کر سکی اور ان میں سے کسی کو بھی ملبے کے نیچے سے نہیں نکالا گیا۔ میرے ساتھیوں نے اپنے مریضوں کو نہیں چھوڑا اور مجھے نہیں معلوم کہ ان کا انجام کیا ہوا ہے"۔