والد ہیپاٹائٹس سے جبکہ بھائی ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے اسکے بعد۔۔اپنا غم چُھپا کر چہرے پر مسکراہٹ سجائے سڑکوں پر جوکر بن کر گھومنے والی حمیرا کی رُلا دینے والی کہانی

image

دنیا میں نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنا غم مسکراہٹ کے پیچھے چھپائے پھرتے ہیں، اور ایسے لوگوں کی لسٹ میں سر فہرست جوکر ہوتے ہیں جو یہ کام باخوبی کرتے ہیں۔

آج ہم آپ کو ایک ایسی ہی جوکر کی کہانی سنانے جارہے ہیں، جس نے اپنے گھروالوں کی خاطر اپنی زندگی وقف کردی۔

یہ کہانی لاہور سے تعلق رکھے والی حمیرا کی ہے، حمیرا ایک ایسی خاتون ہیں جو مجبوری کی خاطر اپنی خوشی کو مار کر دنیا کو ہنسا رہی ہیں۔ حمیرا جوکر بن کر لاہور کی سڑکوں پر گھومتی ہیں اور لوگوں کو تفریح فراہم کر کے پیسے کماتی ہیں۔ وہ لاہور میں اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔

حمیرا ویسے تو ایف ایس سی کر چکی ہیں مگر گھر میں کوئی کمانے والا نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود کمانے نکل پڑیں ہیں اور پڑھائی کو چھوڑ دیا ہے۔ حمیرا کہتی ہیں کہ، "میں اپنی خوشی کو مار کر دوسروں کو خوش کرتی ہوں، میں چاہتی تو کوئی غلط کام کے ذریعے بھی پیسے کما سکتی تھی لیکن میں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا ہے کہ مر جاؤں گی مگر کوئی غلط کام نہیں کروں گی۔"

حمیرا کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی جس کی وجہ سے اس پر والدہ کی دوائی وغیرہ کے اخراجات کی بھی ذمہ داری ہے۔ حمیرا کہتی ہیں کہ، "میں دن میں 700 سے 800 روپے کما لیتی ہوں، جبکہ لوگ تصاویر کھچوا کر بھی کچھ پیسے دے دیتے ہیں۔ ان پیسوں سے دودھ اور امی کی دوائیاں آجاتی ہیں یہی کافی ہے، میں گزر بسر کسی نا کسی طرح کر لیتی ہوں"۔

گھر کے کرایہ سے متعلق حمیرا کا کہنا تھا کہ، "دو ماہ سے گھر کا کرایہ نہیں دیا، مگر مالک مکان بہت اچھے ہیں ہمیں وقت دیا ہے۔ ہم پر ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب 4 دن تک کھانے کو کچھ نہیں تھا پھر پڑوسی نے ہمیں کھانا دیا۔"

حمیرا گھر کا خرچہ پورا کرنے کے جوکر کے کپڑے پہنتی ہیں اور اپنے دکھ اور افسردگی کو ماسک کے پیچھے چھپا کر لوگوں کو ہنساتی ہیں۔

حمیرا کی طلاق یافتہ ہیں، ان کے دو بھائی اور والد بھی تھے لیکن والد ہیپاٹائٹس سے جبکہ بھائی ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گیا تھا، اور دوسرے بھائی کی لعش ملی تھی۔ ان مشکل حالات میں انھیں اپنی والدہ کے ساتھ رہنا پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے شوہر نے انہیں طلاق دے دی۔

حمیرا کہتی ہیں کہ، "ایک مرتبہ کچھ افراد نے میرا ماسک کھینچا جس کی وجہ سے میرے بال بھی کھل گئے تھے، میں اس قدر لاچار تھی، میں نے انہیں بد دعا نہیں دی اور بس یہی دعا کی کہ اے اللہ یہ زمین پٹھے اور میں اس میں دفن ہو جاؤں"۔

حمیرا آج بھی اپنی والدہ کی دواؤں کا اور گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لیے اپنے چہرے پر وہی ہنسی سجا کے نکلتی ہیں جو لوگوں کو پسند ہے۔

You May Also Like :
مزید