خود کو تکلیف دے کر سکون محسوس کرتی تھی۔۔۔ چھوٹی عمر سے خود کو درد دینے کی آخر کیا وجہ تھی؟ معصوم لڑکی پر گزرنے والے دکھوں کی داستان

image

بچپن ایک ایسا وقت ہے جس کی ہر بات آپکو یاد رہتی ہے چاہے وہ اچھی ہو یا بری، اگر بچپن میں آپ کے ساتھ کچھ برا ہوتا ہے تو اسکا اثر آپکی آنے والی پوری زندگی پہ پڑتا ہے۔ ایسا ہی کچھ اس لڑکی کے ساتھ ہوا، ہیومنز آف بمبئی کی ویب سائٹ پر اس لڑکی نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ؛

اپنی پوری زندگی میں، میں نے بس یہ محسوس کیا ہے جیسے کہ میں اس دنیا سے تعلق نہیں رکھتی۔ بچپن میں، بغیر کسی وجہ کے میرے آس پڑوس کے بچے کہتے "ہم تمھارے ساتھ نہیں کھیلنا چاہتے کیونکہ ہم تم کو پسند نہیں کرتے" میں اکیلے بیٹھ کر انہیں کھیلتا دیکھتی۔

لیکن جب میں 11 سال کی ہوئی تو میں اپنے بدترین ڈراؤنے خواب کا سامنا کیا- ایک رشتہ دار جس پر میں بھروسہ کرتی تھی، اس نے مجھ پر جنسی حملہ کیا۔ اس کے بعد میں خود کو اندر سے کھوکھلا محسوس کرنے لگی۔ میں نے سوچا "میرے ساتھ کچھ مسئلہ ہے اور مجھے سزا ملنی چاہیے" تو میں نے خود کو نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ میں نے اپنے ہاتھ کاٹنا شروع کردئیے، یہ درد مجھے اُس جذباتی صدمے سے بہتر محسوس ہوا جس سے میں گزر رہی تھی۔ اگلے چھ سالوں تک یہ میری زندگی کا حصہ رہا، میں کسی سے بات نہیں کرتی تھی میں نے خود کو ایک خول میں لپیٹ لیا تھا۔

پھر 2017 میں، میں نے کالج جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے سوچا، میں یہاں اچھے لوگوں سے مل سکتی ہوں، لیکن وہاں بھی میں نے خود کو الگ تھلگ محسوس کیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک بار ایک دوست کو بتایا تھا کہ میں کیسا محسوس کر رہی ہوں اور اس نے مجھے سہارا دینے کے بجائے کہا "توجہ کی متلاشی بننا چھوڑ دو"۔ آخر ایک دن میں نے والد کو فون کیا اور کہا "میں مزید زندہ نہیں رہنا چاہتی"، میرے والدین مجھے ہسپتال لے گئے اور 20 سال کی عمر میں مجھے ٹائپ 2 بائپولر کی تشخیص ہوئی جو ایک طرح کی ذہنی بیماری ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ پہلا جذبہ جو میں نے محسوس کیا وہ راحت تھی۔ میں نے سوچا کم از کم میرے پاس اس بات کا جواب ہے کہ میں ایسا کیوں محسوس کرتی ہوں۔ اس بیماری میں، میں نے اپنے تمام بال کھو دیئے، میری خود اعتمادی خراب ہوگئی، میں نے بتیس بار شاک تھیراپی کروائی۔ والد صاحب نے میری دیکھ بھال کے لیے ایک سال کی چھٹی لی، وہ میرے ساتھ بیٹھتے، بات کرتے اور سب سے اہم بات میری بات سنتے۔ ان کے ساتھ نے مجھ میں اعتماد پیدا کیا، میں نے اپنے دل کی بات کی اور محسوس کیا کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔

لوگ سمجھتے ہیں جس کا بھی دماغی علاج چل رہا ہو وہ پاگل ہے لیکن اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ آج میں 28 سال کی ہوں، اور مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں خود سے تعلق رکھتی ہوں۔ یہاں تک کہ میں نے "بائیو پولر کے ساتھ رہنے کے طریقہ" پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ ایک بار جب ایک لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی "ہمیں حوصلہ دینے کے لیے آپ کا شکریہ" مجھے لگا کہ میں نے آخر کار کچھ ٹھیک کر دیا ہے۔

لہذا، اگلی بار جب کوئی آپ کے سامنے روئے اور کہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں، تو اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ ان سے پوچھیں 'کیا آپ ٹھیک ہیں؟' یہ تین الفاظ، لفظی طور پر کسی کی زندگی بدل سکتے ہیں۔

You May Also Like :
مزید