آج کے دن 14 فروری کو جہاں دنیا میں لوگ ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں وہیں کچھ لوگ ہندوستانی سنیما کی ایک آئیکون مدھوبالا کی سالگرہ بھی مناتے ہیں، جنہوں نے نہ صرف اپنی خوبصورتی سے سامعین کو مسحور کر دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسکرین پر گہرے جذبات کو بھی بخوبی پیش کیا۔
1933 میں ممتاز جہاں بیگم دہلوی (مدھوبالا) کی پیدائش ہوئی، مدھوبالا نے نو سال کی عمر سے ہی اداکاری کا آغاز کردیا تھا۔ ان کا یہ قدم اپنے خاندان کی معاشی حالات بہتر کرنے کیلیئے تھا، جس میں انکے والد عطاءاللّٰہ خان نے انکو اپنی نگرانی میں رکھا۔ مدھوبالا کی شہرت اور اداکاری بہت ہی کم وقت میں آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئی۔
یہ دیویکا رانی ہی تھیں (ماضی کی ایک اداکارہ) جنھوں نے نوجوان اداکارہ میں بے لگام صلاحیت دیکھی اور اسے مدھوبالا کا نام رکھنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے 1947 کی فلم نیل کمال میں مشہور اداکار راج کپور کے مدمقابل اپنا پہلا مرکزی کردار حاصل کیا، جس میں ان کا نام آخری بار ممتاز کے طور پر درج ہوا تھا۔
صرف 36 سال پر محیط زندگی میں انہوں نے کئی یادگار فلمیں کیں جن میں محل (1949)، امر (1954)، مسٹر اینڈ مسز '55 (1955)، چلتی کا نام گاڑی (1958)، ہاوڑہ برج (1958) مغلِ اعظم (1960) اور برسات کی رات (1960) شامل ہیں۔
یہ آزادی کے بعد کا ہندوستان تھا، جہاں معاشی اور سماجی طور پر وقت مشکل تھا اور اس ماحول میں ان کی فلموں نے اپنے پیچھے گہرے نقوش چھوڑے۔ ان میں سے بہت سی کہانیاں جنہیں مدھوبالا نے اسکرین پر پیش کیا وہ محبت کی کہانیاں تھیں جو غربت، استحصال، پیچیدہ خاندانی تعلقات اور گانوں کے ساتھ چھائی ہوئی مصیبتوں کے پس منظر میں رکھی گئی تھیں، جن کے گانے آج بھی بہت سے ہندوستانی گھرانوں میں سنے جاتے ہیں۔
مدھوبالا نے مختصر زندگی گزاری لیکن اس مختصر وقت میں بہت کچھ حاصل کیا۔ مدھوبالا کی بہن مدھور برج نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا کہ، ان دنوں اداکاری کو خواتین کے لیے مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اپنی شاندار اداکاری کی مہارت اور لازوال خوبصورتی سے انھوں نے اپنے لیے ایک پہچان بنائی اور آج تک انھیں گرمجوشی کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ مادام تساؤ میوزیم میں انارکلی کے مومی مجسمے کی نقاب کشائی بھی ہوئی تھی۔
کامیابی اور شہرت کے باوجود، ان کے آخری سال بہت مشکل تھے۔ دلیپ کمار کے ساتھ ٹوٹے ہوئے تعلقات، جو کہ بالی ووڈ کے ایک آئیکن تھے، مبینہ طور پر اپنے والد کی حرکات، گلوکار/اداکار کشور کمار کے ساتھ مشکل شادی اور 1954 میں دل کی پیدائشی بیماری نے زندگی کو مشکل بنا دیا۔
1960 تک، ان کی حالت نمایاں طور پر خراب ہوگئی تھی، بیماری کی وجہ سے ان کے جسم سے اضافی خون نکلتا اور ناک اور منہ سے بہتا۔ ڈاکٹر گھر آ کر خون کی بوتلیں نکالتا۔ وہ پھیپھڑوں کے پلمونری پریشر کا بھی شکار تھیں اور ہر وقت کھانستی رہتی تھیں۔ ہر چار پانچ گھنٹے بعد انھیں آکسیجن دینا پڑتی تھی ورنہ سانس بند ہو جاتی تھی۔
اں کی بہن نے فلم فیئر کی تقریب میں بتایا تھا کہ، وہ نو سال تک بستر تک محدود رہیں اور صرف ہڈیوں پر چپکی جلد کا ڈھانچہ بن گئی تھیں ۔
23 فروری 1969 کو، اپنی 36 ویں سالگرہ کے فوراً بعد، اپنی ہدایت کردہ فلم فرض اور عشق کے ریلیز سے پہلے ہی، انتقال کر گئیں۔