میاں بیوی کا تعلق سب سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس کو محبت اور جذبات کی خوبصورتی سے جوڑ کر رکھا جائے تو اس کے دھاگے آپس میں جڑے رہتے ہیں لیکن اگر کسی تیسرے شخص کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اس کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے تو یہ رشتہ چھوئی موئی کی طرح بکھر جاتا ہے جس کو جوڑنے پر بھی جوڑا نہیں جاتا اور پھر طلاق کا دھبہ لگ جاتا ہے۔
اکثر مرد اپنی ماں اور بہن کی باتوں میں آکر بیویوں کو برا بھلا کہتے ہیں ان پر تشدد کرتے ہیں ان کا دل توڑتے ہیں پھر انہیں طلاق دے کر ہمیشہ کے لئے والدین کی دہلیز پر بٹھا دیتے ہیں۔
جب سچائی اور حقیقت ان مردوں کے سامنے آتی ہے تو ان کی نظر میں قصوروار نہ ان کی ماں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی بہن، بس وہ اپنی کم ظرفی کا صدمہ لیئے گھومتے ہیں، خود کی مردانگی پر شک کر بیٹھتے ہیں کہ ہم باہر کی دنیا میں کروڑوں لوگوں سے رابطہ کرتے ان کو پرکھتے ہیں لیکن اس عورت کو ہی نہ سمجھ سکے جو نکاح میں تھی ہمارے۔۔
ایک شخص نے ہمیشہ اپنی ماں کو اپنا آئیڈیل سمجھا اور بہن کو سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار۔۔ جب اس کی شادی ہوئی اور بیوی گھر میں ائی، اس نے گھر کو بہت محبت اور خلوص سے اپنی مہارت سے جوڑ کر رکھا لیکن جب ماں اور بہن نے بیٹے کو بہو کی محبت کرتا دیکھا تو ان سے برداشت نہ ہوا اور اس معصوم کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو پہاڑ کی طرح بڑا کر کے دکھایا، بتایا یہاں تک کہ معاملہ اس مقام پر آن پہنچا کہ بہن کے رونے دھونے پر بھائی نے اپنی نیک پارسا بیوی کو طلاق دے دی ۔۔
اس طلاق کے بعد اس عورت کو معاشرے کی زنجیروں نے جکڑ لیا، اس کے گھر والے بھی تکلیف میں رہے, یہاں تک کہ اس عورت کو کیسنر کا مرض لاحق ہوا اور وہ بسترِ مرگ پر آنکھیں بند کیئے پڑی تھی۔
جب گھر کی ملازمہ سے اس شخص کو سچ معلوم ہوا تو اس کے پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی۔ پھر سمجھ آیا کہ کتی بڑے بیوقوفی کر بیٹھا۔
طلاق کا صدمہ وہ عورت تو برداشت نہ کر سکی اور دم توڑ گئی لیکن وہ مرد 20 سال تک اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر جیتا رہا۔
کیا ہمارے گھروں میں ساس اور نندیں بہو کی خوشی یا بیٹے کی بیوی سے محبت کو برداشت نہیں کرسکتے ؟
کیا ہم میں عدم برداشت اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ وہ رشتوں کی خوشی اور اہمیت سے زیادہ ہے؟