لوگ اونچ نیچ اور ذات پات کے چکروں میں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سامنے والا بھی انسان ہے اور اسکے اندر بہنے والا خون بھی لال ہی ہے۔ آج ہم آپ کو ایسا ہی ایک واقعہ سنانے جارہے ہیں جس نے دو پیار کرنے والوں کی زندگی اجاڑ دی۔
شَنکر میری زندگی میں تازہ ہوا کی طرح آیا تھا۔ ہم کالج میں ملے، میں اپنے پہلے سال میں تھی اور وہ اپنے تیسرے سال میں۔ ہم کالج کی بس میں بات کیا کرتے، وہ میرے پیچھے بیٹھا کرتا تھا۔ وہ بہت شرمیلا اور اچھا لڑکا تھا، اس کے ساتھ مجھے کسی بات کی فکر نہیں ہوتی تھی کہ میں کیسے بات کررہی ہوں کیسے ہنس رہی ہوں وغیرہ۔
میں ایک ایسے گھر سے تھی جہاں عورتوں کو کچھ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مجھے ہمیشہ ہر عمل اور ہر لفظ کے لیے روکا ٹوکا جاتا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب شنکر میری زندگی میں داخل ہوا تو میں اسے جانے نہیں دینا چاہتی تھی، لیکن میں جانتی تھی کہ میرا خاندان اسے کبھی قبول نہیں کرے گا کیونکہ وہ ایک دِلت تھا (ہندوؤں میں نچلی ذات کا طبقہ)۔
اسے اپنے دل کی گہرائیوں سے پیار کرنے کے باوجود، میں نے کبھی اس سے پیار کا اظہار نہیں کیا۔ پر ڈیڑھ سال بعد میرے والدین کو ہمارے بارے میں پتہ چل گیا، یہ سب سے بڑی بدقسمتی تھی۔ ایک کنڈیکٹر نے ہمیں بس میں دیکھ کر انہیں اطلاع دی۔ اس دن، میرے والدین نے میرا فون چھین لیا، مجھے کالج سے نکال دیا اور مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا۔
اماں نے کہا، میں نے تمہارے ابا سے اس لیے لڑائی کی تھی کہ تم پڑھ لو پر تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔ اور کہا کہ بہت جلد تمہاری شادی ہو جائے گی۔ شنکر کے علاوہ کسی اور کے ساتھ زندگی گزارنے کے خیال نے مجھے پریشان کر دیا۔ اور اگلے دن جب وہ ایک متوقع دولہے سے ملنے گئے تو میں نے اپنا سامان باندھا اور شنکر کے پاس بھاگ گئی۔ یہ جان کر کہ ہماری جان خطرے میں ہے، ہماری محبت نے ہمیں کہا، چلو شادی کر لیتے ہیں۔ ہم شنکر کے گھر چلے گئے، اس کے والدین نے ہمیں دعا دی اور ان کی موجودگی میں ہم نے شادی کرلی۔
شنکر اور اس کے والدین کے ساتھ، مجھے ایسا لگا جیسے مجھے ایک ایسا خاندان مل گیا ہے جس کے لیے میں ترس رہی تھی۔ میرے ساتھ بیٹی جیسا سلوک کیا گیا اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک انسان سمجھا گیا۔ لیکن میرے ماضی نے پیچھا نہیں چھوڑا، روزانہ میرے گھر والے ہمارے گھر کے باہر آتے اور باہر کھڑے ہوکر شنکر اور اس کے خاندان پر اپنی بیٹی کو چوری کرنے کا الزام لگاتے۔ انھوں نے شنکر کے خلاف اغوا کا مقدمہ بھی درج کرایا لیکن میرے بیان نے ہمیں بچا لیا۔
لیکن ہمارا سب سے بڑا خوف ہماری شادی کے 8 ماہ بعد سچ ثابت ہوا۔ میرے والدین نے مجھے دھمکی دی اور مجھے واپس آنے کو کہا۔ میں نے منع کیاتو انہوں نے مجھ سے کہا کہ، اب جو ہوگا اس کی ذمہ دار تم ہوگی۔ اور ایک ہفتہ بعد انہوں نے اپنے الفاظ پر عمل کیا۔
ہم شاپنگ کرنے نکلے تھے جب سڑک پار کرتے ہوئے کچھ لڑکے ہماری طرف آنے لگے، میں نے شنکر کو خبردار کیا لیکن اس نے کہا نظر انداز کرو۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ اور سوچتے انہوں نے ہم پر حملہ کردیا، ہم اپنا دفاع نہیں کر سکے۔ ہم نے بھاگنے کی بہت کوشش کی لیکن ہم 5 کے مقابلے میں 2 تھے۔ انہوں نے ہم پر چاقو سے وار کئے۔ میری ساری زندگی میرے سامنے آگئی اور میں شنکر کو دیکھ رہی تھی جو مجھ سے زیادہ زخمی تھا۔ آس پاس کے لوگوں نے ہمیں ہسپتال پہنچایا۔ لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ میں بچ گئی اور وہ مرگیا۔
جب ڈاکٹر نے مجھے خبر دی تو ایسا لگا جیسے کسی نے میرے نیچے سے فرش کھینچ لیا ہو۔ میں 20 دن بعد جب ہسپتال سے باہر آئی تو مجھے معلوم تھا کہ مجھے ان لوگوں کے خلاف لڑنا ہے جنہوں نے میرے شوہر کی زندگی کا گلا گھونٹا، اور سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہ میرے اپنے ہی تھے۔ میں جانتی تھی کہ اگر شنکر دِلت نہ ہوتا تو وہ بھی اس سے محبت کرتے اور اپناتے۔
لیکن ان کی ذات سے محبت اور ان کی سماجی عزت نے انہیں ایسا کرنے نہیں دیا۔ میں انہیں اور اس نظام کو کبھی معاف نہیں کر سکتی۔ ہمارے شہر کے ذات پات مخالف کارکنوں نے میرا ساتھ دیا، میں ان کے ساتھ رہنے لگی پھر میں نے مرکزی حکومت کے دفتر میں کام کرنا شروع کیا۔ میں ہر روز، میں اپنے والدین کے خلاف لڑنے کے لیے عدالت جاتی تھی۔ انہوں نے حادثے کے فوراً بعد خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا اور میرے والد کو سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن مہینوں میں وہ تمام الزامات سے بری ہو گئے، ہائی کورٹ نے انہیں بے قصور قرار دیا۔ لیکن میں نے بھی سپریم کورٹ میں کیس کرنے کا فیصلہ کیا، میں انصاف کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گی اور پچھلے 8 سالوں سے کر رہی ہوں۔