جب انسان کا انتقال ہوتا ہے، سب سے پہلے اس کے آخری سفر کی تیاری کا بندوبست کیا جاتا ہے، تاکہ اس کے جسم کو جلد از جلد خاک کے سپرد کر دیا جائے۔
یہ تو عام سی بات ہے لیکن جب ایک حاملہ عورت کا انتقال ہوتا ہے، تو اس کے جسم میں آنے والی تبدیلی مختلف ہوتی ہے۔
سائنس کی جانب سے ایک ایسا انکشاف کیا گیا ہے جس نے سب کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے، EastCoastDaily نامی ویب سائٹ کی جانب ایک ایسی رپورٹ پبلش کی گئی تھی جس نے سب کی توجہ حاصل کی۔
اس رپورٹ میں ایک حاملہ خاتون کے بارے میں بتایا گیا ہے جو کہ انتقال کر گئی تھی اور پھر اس حاملہ خاتون کا بچہ جو کہ آدھا حمل کے عمل کے دوران کافی حد تک بن چکا تھا، وہ بھی مر گیا۔
یونیورسٹی آف فریرا اینڈ بلوگنا کی جانب سے ایک ایسی ہی تحقیق کی گئی تھی جس میں یہ ساتویں یا آٹھویں صدی سے تعلق رکھنے والی 38 ہفتوں کی حاملہ خاتون سے متعلق انکشاف کیا گیا۔
اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اس مردہ خاتون کی عمر 25 سے 35 سال کے درمیان تھی، جس کو دفن کیا گیا تھا، تاہم اس کو دفنانے کے 2 سے 3 دن بعد حمل کے عمل سے گزرنے والا بچہ آدھا باہر آ گیا تھا جبکہ آدھا اندر ہی تھا، تحقیق کے مطابق بچے کی جنس تو معلوم نہ ہو سکی تاہم بچے کا سر اور دھڑ باہر کی جانب نکلا ہوا تھا اور ٹانگیں اندر ہی تھیں۔
تحقیق میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ حاملہ خاتون کی موت کے 2 سے 3 دن بعد جسم میں کچھ ایسی گیسوں کی افزائش ہوتی ہے جو کہ حمل کے عمل سے گزرنے والی ننھی جان کو باہر کی جانب دھکیلتی ہیں۔
اس طرح مردہ جسم سے بھی ایک اور جان نکلتی ہے، تاہم اس تحقیق میں واضح کیا گیا تھا کہ جب اس خاتون کو دفنایا گیا تھا تو اسی وقت ننھی جان مر چکی تھی۔ حمل کے عمل کے دوران ہی انتقال کر جانے والی خواتین کے اس عمل کو coffin birth کہتے ہیں۔ دوسری جانب آج کے دور میں کچھ مختلف طریقے نہیں اپنائے جاتے، البتہ اگر حمل کے دوران ماں چل بسی اور اس کے پیٹ میں موجود بچے کی دھڑکن چل رہی ہیں، تو اس بچے کو جب تک وہ زندہ ہے، اس کی جان بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، جیسا کہ عام طور پر ڈاکٹرز کرتے بھی ہیں۔