ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کئی سو سال تک ایک ایسے معاشرے میں رہنے کے سبب جہاں ہندو اکثریت میں تھے پاکستان بننے کے باوجود آج بھی ہم ایسی بہت ساری رسومات کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں- جن کا تعلق ہمارے دین یا مذہب سے نہیں ہے بلکہ یہ سارے رواج سراسر ہندو معاشرے سے مستعار لیے گئے ہیں۔
اور ان کے صحیح یا غلط ہونے سے قطع نظر ان کی پیروی کرنے کا بنیادی سبب یہی ہوتا ہے کہ چونکہ ہم نے اپنی بیٹی کے ٹائم پر ایسا کیا تھا تو اب ہم اپنی بہو سے بھی ایسا کروائیں گے-
ایسے ہی بہت ساری رسومات میں سے ایک رسم پہلے بچے کی پیدائش کا میکے میں ہونا اور اسکے بعد چھٹی وغیرہ کرنا ہے-
پہلے بچے کی میکے میں پیدائش کی حقیقت:
ہندوستانی معاشرے میں لڑکیوں کو سر کا بوجھ سمجھا جاتا ہے اس وجہ سے ان کی شادیاں کرنا ایک بہت ہی بڑا مسئلہ ہوتا تھا اسلیئے لڑکی والوں کی جانب سے اپنی بیٹی سے شادی کرنے کے لیے لڑکے والوں کو طرح طرح کی لالچ دی جاتی تھی۔ جو کہ بعد میں جہیز کی رسم کی صورت اختیار کر گئی۔ ان تمام رسومات کا سبب لڑکی والوں کو دبا کر رکھنا ہوتا اور ان کو بار بار یہ احساس دلانا ہوتا کہ ان کے سر کے بوجھ کو اب ہم سنبھال رہے ہیں- اس وجہ سے ان کو مختلف طریقوں سے اس بوجھ کو سنبھالنے میں ان کی مدد کرنی چاہیے-
بچے کی ڈلیوری میکے میں ہوگی:
اس بات سے ہم سب ہی واقف ہیں کہ بچے کی ڈلیوری ایک ذمہ داری کا کام ہوتا ہے جس کے لیے حمل کے دوران اور ڈلیوری کے دوران نہ صرف حاملہ عورت کو آرام اور توجہ اور بہترین غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح حمل کے بعد بھی ڈلیوری کی مد اور حاملہ عورت کی دیکھ بھال کی مد میں بھی کافی اخراجات ہوتے ہیں جو کہ سسرال والوں کو ایک بوجھ کی طرح محسوس ہوتے تھے- جس کے سبب ہندوستانی معاشرے میں اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ڈلیوری کے آخری دنوں میں جب بہو گھریلو کام کاج کے قابل نہ رہتی اور اس کو آرام کی ضرروت ہوتی تو اس کو اس کے میکے بھجوا دیا جاتا تاکہ اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سسرال والوں کو نہ اٹھانی پڑتی اور اس کے ساتھ ساتھ ڈلیوری کے اخراجات سے بھی بچا جا سکے-
ڈلیوری کے بعد چَھٹی چِھّلا اور تحفے تحائف:
معاملہ صرف ڈلیوری پر ہی ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ میکے والوں کی ایک اور ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ پہلے تو بیٹی کی ڈلیوری کروائيں اور اس کے سارے اخراجات بھگتیں اور لڑکی کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کے کپڑوں اور استعمال کی دیگر اشیا کے ساتھ تمام سسرال والوں کے لیے کپڑے اور تحائف بھی لیں۔ اس کے بعد چالیس دن تک دیکھ بھال کر کے ماں اور بچے کو اس قابل کر دیں کہ وہ دوبارہ سے سسرال جا کر ان کی خدمت کرنے کے قابل ہو جائے-
بچے کا خرچہ اٹھانا باپ کی ذمہ داری:
جس طرح ایک ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ نو ماہ اپنے بچے کو اپنی کوکھ میں رکھنا اسکی صحت کے حوالے سے خیال رکھنا اور اسکے ساتھ ہی بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا۔ اسی طرح بچے کی ماں کی دیکھ بھال اور اس بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی ڈلیوری اور اس کی پرورش کے تمام اخراجات کی ادائیگی شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر اپنی آسانی کے خیال سے بہت سارے مرد اس مشکل وقت میں اپنی بیوی کو میکے بھجوا کر خود کو ٹینشن سے آزاد کر لیتے ہیں جو کہ شرعی اور اخلاقی دونوں طور پر کسی صورت ثابت نہیں ہے۔