ہاتھ پاؤں باندھ کر بچوں کے سامنے سیڑھیوں پر گھسیٹتے ۔۔ امریکہ میں سسرال والوں کا پاکستانی بہو پر 12 سال تک ظلم و ستم، عدالت نے کیا فیصلہ سنایا؟

image

اگر ہم بات کریں پاک و ہند کی تو یہاں آئے دن یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ فلاں کے سسرال والوں نے بہو پر ظلم کیا یا برا سلوک کیا کیونکہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ساس بہو والی دقیانوسی سوچ رکھنے والے کافی لوگ پائے جاتے ہیں۔ لیکن مغربی ممالک سے جب ایسی خبر آتی ہے تو، یہ خیال ذہن میں لازمی آتا ہے کہ وہاں بھی یہ سب ہوتا ہے؟ جی ہاں انسان چاہے کتنا بھی ماڈرن کیوں نہ ہوجائے اپنی سوچ و ذہنیت کو نہیں بدل سکتا۔

ایسا ہی کچھ امریکہ میں پیش آیا، جہاں ایک ہی خاندان کے تین افراد کو ایک پاکستانی خاتون پر 12 سال ظلم و زیادتی کرنے اور جبری مشقت کروانے کے جرم میں عدالت نے سزا سنائی۔

امریکی محکمہ انصاف کے ایک علامیہ کے مطابق، 80 سالہ زاہدہ امان (ملزم) نے متاثرہ خاتون سے 2002 میں اپنے بیٹے کی شادی کروائی تھی مگر کچھ عرصے بعد اس کا شوہر گھر چھوڑ کے چلا گیا، تب بھی سسرال والوں نے خاتون کو ورجینیا میں گھر پر رکھا اور اس سے باقی لوگوں کی خدمت کروائی۔

محکمہ انصاف کے مطابق، جبری مشقت کا یہ سلسلہ 12 برس تک چلتا رہا، اس کے علاوہ سسرالیوں نے خاتون کے امیگریشن دستاویزات اور پیسے بھی ہتھیا لیے اور دھمکی دی کہ اُنھیں پاکستان ڈی پورٹ کروا کر اُنھیں ان کے بچوں سے جدا کر دیا جائے گا۔

عدالت میں ملزمان کو قصوروار ٹھہرائے جانے کے بعد زاہدہ امان کو 12 سال جبکہ ان کے بیٹوں، 48 سالہ محمد ریحان چوہدری کو 10 سال اور 55 سالہ محمد نعمان چوہدری کو 5 سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے زاہدہ امان اور ریحان چوہدری کو حکم دیا ہے کہ وہ متاثرہ خاتون کو ڈھائی لاکھ ڈالر کا ہرجانہ بھی ادا کریں۔

عدالت میں پیش کیے گئے ثبوتوں کے مطابق ملزمان نے خاتون سے گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کروایا، ان پر جسمانی اور زبانی تشدد کیا، اُنھیں پاکستان میں اپنے گھر والوں سے بات نہ کرنے دی جاتی، یہاں تک کہ خاتون کو وقتاً فوقتاً تھپڑ، لاتیں اور مکے مارے جاتے، لکڑی کے تختے سے پیٹا جاتا اور ایک موقع پر تو اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُنھیں ان کے بچوں کے سامنے سیڑھیوں سے نیچے گھسیٹا گیا۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ متاثرہ خاتون سسرالیوں کے ظلم سہنے پر مجبور رہے۔

اس کے علاوہ یہ ثبوت بھی پیش کیے گئے کہ، یہ افراد خاتون سے روز کام کرواتے جس کی شروعات صبح سویرے ہو جاتی۔ خاتونن کے کھانے پینے، ڈرائیونگ سیکھنے اور گھر کے لوگوں کے علاوہ کسی اور سے بات کرنے پر پابندی تھی۔ خاتون سے بے انتہا مشقت طلب کام کروائے جاتے جن میں وسیع باغ کی گھاس تراشنا، قالینوں کو ہاتھ سے دھونا سُکھانا، دو منزلہ گھر کو اندر باہر سے پینٹ کرنا، گاڑی صاف کرنا یہاں تک کہ گھر کے سامنے کنکریٹ کی ایک راہداری بنانا شامل تھا۔ جس کے لیے خاتون کو 80 پاؤنڈ وزنی کنکریٹ کے تھیلے گھسیٹنے پڑتے تھے۔

وکیل جیسیکا ڈی ایبر نے ملزموں کو سزا دلوانے کے بعد جبری مشقت کو "دورِ جدید کی غلامی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ، اس کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

You May Also Like :
مزید