محبت پھول جیسی ہے - قسط 11
(Muhammad Shoaib, Faisalabad)
22 نومبر 2005 بروز منگل
میری اور کرن کی تو جیسے ہر کوشش ناکام ہوگئی۔ آج میں اور وہ کینٹین میں
بیٹھے یہی باتیں کر رہے تھے۔
"لگتا ہے ہماری ہی کوششوں میں کوئی کمی رہ گئی ہوگی، جس کی وجہ سے وہ دونوں
مل نہیں پائے۔۔۔" میں مایوسی کے ساتھ کہتا ہوں
"میرا نہیں خیال کہ ہماری کوششوں میں کوئی کمی رہی ۔۔ ہم نے بھرپور کوشش تو
کی نا۔۔۔۔!" وہ چائے پیتے ہوئے کہتی ہے
""خیال سے کیا ہوتا ہے؟ سچ تو یہی ہے نا۔۔۔ ہم ناکام ہوگئے۔"چائےکا کپ ہاتھ
میں لیتے ہوئے کہتا ہوں
"مگر ایک سچ یہ بھی کہ اگر قسمت میں ہی ملنا نہ ہو تو کوئی چاہے جتنی بھی
کوشش کر لے ، ان کو چاہ کر بھی نہیں ملا سکتا۔۔"چائے کا کپ میز پر رکھے
ہوئے کہتی ہے
"مگر۔۔۔۔۔" چائے کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے
"مگر ۔۔ وگر۔۔۔ کچھ نہیں" وہ میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہتی ہے "
ویسے بھی ہم نے تو اپنی طرف سے پوری کوشش کی نا۔۔۔! اب تو مگر کی کوئی
گنجائش بچتی ہی نہیں" بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتی ہے
"کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔۔۔" کپ میز پر رکھ دیتا ہوں
"دیکھو! اگر قسمت میں ان کا ملنا لکھا ہے تو وہ ضرور ملیں گے۔ اگر ہم کوشش
نہ بھی کریں، قسمت تب بھی ان کا ملا کر ہی دم لے گی۔"
ہماری باتیں جاری رہتی ہیں۔ مجھے اس بات پر افسوس تھا کہ ہم ان کو کیوں
نہیں ملا سکے جبکہ کرن مسلسل مجھے حوصلہ دیے جارہی تھی اور شائد سچ کہہ رہی
تھی ۔ اگر قسمت میں ہوا تو وہ ضرور ملیں گے۔ جیسے محبت کرنا ان کی قسمت میں
لکھی تھی، پھر ایک ساتھ دونوں نے ایک سا درد سہا۔۔۔ پھر اب ان کا دوبارہ
ملنا بھی قسمت کو ہی لکھنا ہوگا۔ ہم اپنی باتوں میں ہی مصروف ہوتے ہیں تب
جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اس پر تو ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی
نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔
"یہ خواب تو نہیں ؟؟؟" چمکتی ہوئی آنکھوں سے سوال کرتا ہوں
"نہیں۔۔۔۔ یہ خواب نہیں، حقیقت ہے۔۔ "وہ ہنستے ہوئے کہتی ہے
"پھر مجھے یقین کیوں نہیں آرہا ؟؟؟؟" ہنستے ہوئے کہتا ہوں
"یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا۔۔۔ مگر سچ ہے یہ۔۔۔"
مہر اور عامر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے ہوئے بات کرتے کرتے چلے آرہے
تھے۔ ان کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے درمیان کبھی کوئی غلط فہمی
تھی ہی نہیں۔ سالوں سے ان کے درمیان صرف محبت کا رشتہ ہے۔ ان کو اس طرح بات
کرتے دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ہنستے ہوئے وہ ہمارے پاس آکر بیٹھ
جاتے ہیں۔ میں اور کرن ابھی بھی حیرانی سے انکی طرف آنکھیں جمائے ہوتے ہیں
"تم دونوں ایک ساتھ ؟؟ وہ بھی اتنے خوش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟" کرن حیرت سے پوچھتی
ہے
"کیوں ؟؟؟ ہمارا خوش ہونا گناہ ہے کیا؟؟ " مہر ہنستے ہوئے کہتی ہے
"کیا اب تم یہی چاہتے ہو کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہی رہیں۔۔۔۔" عامر
بےساختہ بول اٹھتا ہے
"ہمارا وہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔" میں اس کی بات کا جواب دیتا ہوں
"بس۔۔۔۔ بس۔۔۔۔ میں تمہاری بات کا مطلب سمجھ چکا ہوں" وہ ہنستے ہوئے کہتا
ہے
"ویسے یہ دنیا بھی کتنی خود غرض ہے ۔۔۔ جب دو محبت کرنے والے ایک دوسرے سے
علیحدہ ہوں تو ملانے کی ہر سو کوشش کرتی ہے اور جب وہ مل جائیں تو یہ
سوال۔۔۔۔ کیوں ملے ؟ کیسے ملے ؟؟ ،۔۔۔۔۔ کب ملے؟۔۔۔۔کس طرح ملے؟۔۔۔"عامر
مہر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے سنجیدہ انداز میں کہتا ہے
یہ سن کر ہم تینوں ہنس پڑتے ہیں اور مہر اس بات کی تائید کرتی ہے۔
"اچھا ۔۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔ اب نہیں پوچھتے۔۔" میں ہنستے ہوئے کہتا ہوں
"ویسے تم دونوں ہو بہت چھپے رستم۔۔۔۔"کرن کہتی ہے
"کیوں بھئی ۔۔۔۔ اس میں چھپے رستم ہونے کی کیا بات؟" مہر پوچھتی ہے
"بات تو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کب ملتے ہو، کیسے ملتے ہو۔۔ پتہ چلنے ہی نہیں
دیتے۔۔"ہنستے ہوئے کہتی ہے
ان کو ساتھ دیکھ کر مجھے دلی خوشی نصیب ہوتی ہے۔ ملن کیسے بھی ہوا ہو ، پر
دل تو مل گئے۔ دھڑکن تو ایک ساتھ دھڑکنے لگی ۔ جو احساس کہیں کھوگیا تھا ،
وہ دوبارہ جاگ اٹھا۔ وہ محبت جسکی جگہ نفرت نے لے لی تھی ، دوبارہ مہکنے
لگی۔محبت کا پھول دوبارہ کھلنے لگا۔ المختصر انکی محبت نے مجھے بھی سوچنے
پر مجبور کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
31 دسمبر 2005 بروز ہفتہ
پچھلے چند دنوں سے میں نے خود کو وقت کے سمندر میں بہتے ہوئے محسوس کیا ۔
وقت نے مجھے جس طرف لے جانا چاہا، میں بہتا ہی چلاگیا۔ اور پھر ایک وقت
ایسا آیا جب میں نے اپنے آپ کو سمندر کے عین بیچ میں پایا۔ جہاں پر ہر طرف
سے لہریں حملہ کرنے کو تیار تھیں اور کسی بھی لمحے مجھے غرق کر دیتیں مگر
ایک ہاتھ۔ ۔۔ ۔میری طرف بڑھا اور مجھے ان لہروں کے چنگل سے دور لے گیا۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ یہی ہاتھ میری زندگی بدلنے کو ہے۔ مجھے وقت کے سمندر
سے تو بچا لے گا مگر زمانے کے بھروسے پر چھوڑ دے گا۔ سمندر تو ایک بار ہلاک
کرتا ہے مگر یہ معاشرہ تو ہر پل انسان کو موت کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ اور
موت بھی ایسی ، جس کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا:
اب تو گھبرا کر کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کر بھی چین نا آیا تو کِدھر جائیں گے
سب کچھ جانتے ہوئے بھی کیوں میں نے اس کو اپنا ہاتھ تھامنے دیا؟ کیا میں
اتنا مضبوط بھی نہیں تھا کہ وقت کی لہروں کا اکیلا سامنا کر پاتا ؟؟ ۔۔۔
شائد نہیں۔ ۔۔
میری دِلچسپی کِرن میں بڑھتی جارہی تھی۔ مجھے اس کے ساتھ وقت گزارنا اچھا
لگنے لگاتھا۔ گھر میں بھی صِرف اسی کے بارے میں سوچنا میری عادت بن گئی۔ جب
تک میں اس کو نہ دیکھ لیتا میری آنکھوں کو سرور نہ آتا ۔ایک بے چینی میرے
دِل میں کھٹکتی رہتی۔ یہ احساس مجھے اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتا جارہا
تھا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ کوئی میری روح کا حصہ بن گیا ہو مگر وہ حصہ میرے
پاس نہیں۔ کسی نے اس کو مجھ سے جدا کردیا ہو۔میرے اِس حال کو عامر فوراً
سمجھ گیا۔اس نے کئی بار مجھ سے میرے اس حال کے بارے میں پوچھا مگر میں نے
ٹالنے کی بھرپور کوشش کی مگر کہتے ہیں نا کہ محبت اور مشک چھپائے نہیں
چھپتے۔ میری زبان بار بار اس بات کو جھٹلاتی رہی مگر نگاہیں خاموش رہ کر
اقرار کرتی رہیں۔ میرے اس دوغلے پن کو وہ سمجھ گیا اور مجھے سچائی تسلیم
کرنے کو کہا مگر میری طرف سے نہیں اس کے ہر سوال کا جواب بن جاتا۔
آج بھی اسی ٹوپک کو ڈِسکس کرنے کی خاطر اس نے مجھے اپنے ساتھ دو گھنٹے
گزارنے کو کہا۔لیکن جب میں نے صاف انکار کر دیا تو:
"یار ۔۔ اچھا ٹھیک ہے، اس موضوع پر بات نہیں کریں گے مگر پڑھائی۔۔۔۔ اس پر
تو ڈسکشن ہو سکتی ہے یا نہیں ۔۔۔۔؟ "
"وہ تو ہم کلاس روم میں بھی کر سکتے ہیں" آنکھیں چراتے ہوئے کہتا ہوں
"تم کوئی بھی بات آسانی سے کیوں نہیں مانتے ؟؟"وہ تھوڑی سی اونچی آواز میں
بولتا ہے
"بے تکی باتیں مت کرو ۔۔۔ کوئی کام ہے تو بتاؤ۔۔۔"
"مطلب تم نہیں چلو گے میرے ساتھ ۔ ۔۔ وہ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے
مگر جب میں جواب نہیں دیتا تو ۔۔۔۔"ٹھیک ہے ، نہ چلو۔۔۔۔ ۔ جارہا ہوں میں"
یہ کہہ کر وہ چل دیتا ہے، لیکن تب ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے۔
شائد میں نے کچھ زیادہ ہی بے رخی اختیار کر لی تھی۔ اسی لیے میں اس کے
پیچھے چل دیتا ہوں
"کہاں چلنا ہے؟" اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتا ہوں
"یہ ہوئی نہ بات ۔ ۔ ۔۔ کہاں چلنا ہے ۔!!! یہ تو جا کر ہی پتا چلے گا۔۔۔
"وہ ہنستے ہوئے کہتا ہے
“Let’s Go ……”
ہم چلتے چلتے باتیں کرتے رہتے ہیں اور لان تک جا پہنچتے ہیں۔ وہاں گلاب کے
پھول اپنی رعنایاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ انکی بھینی بھینی خوشبو دل کو مچل
دینے والی ہوتی ہے۔ بات کرتے کرتے ہم دونوں خاموش ہوجاتے ہیں۔ وہ میری طرف
دیکھتا ہے مگر میری نظریں تو گلاب کے پھولوں پر ہوتی ہیں۔ مجھے ان پھولوں
میں کرن کا خوبصورت چہرہ نظر آتا ہے ۔ جسکی وجہ سے میرے چہرے پر ہلکی سی
مسکراہٹ آجاتی ہے۔ وہ میرے حالات کو فوراً بھانپ لیتا ہے اور گلاب کے
پھولوں کے پاس جاکر ایک پھول توڑ کر میرے پاس لاتا ہے۔
"یہ پھول بھی کیا چیز ہیں ۔۔ ۔ ۔ ۔ایک بار دیکھو تو بس یہی جی چاہتا ہے کہ
بندہ ان کو دیکھتا ہی رہے۔" میرے ہاتھ میں پھول دیتے ہوئے کہتا ہے
"صحیح کہا تم نے۔ ۔۔ ۔ ۔ اپنے رنگ، اپنی خوشبو، اپنے شوخ سے سب کو اپنی طرف
متوجہ کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی اپنا ان پھولوں میں سما گیا
ہو۔ ۔۔"پھولوں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی ہی دھن میں کہتا جاتا ہوں
"اور تمہیں پتا ہے کہ ایسا کب لگتا ہے ؟" وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے
"کب؟" اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہوں
"یہ سب کچھ محبت میں ہوتا ہے۔۔۔ تمہیں پتا ہے، جب مجھے مہر سے محبت ہوئی
تھی تو میرا حال بھی کچھ اس ہی طرح تھا۔ کسی کام میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔
بس دل چاہتا تھا کہ ہر وقت میں ہوں اور میری محبت۔۔۔ دنیا نام کی چیز ہی
ختم ہوجائے۔ ۔۔۔" پھولوں کی طرف دیکھ کر اپنے گزرے کل کو یاد کرتے ہوئے
کہتا ہے
"اور ۔۔۔ کیا احساس تھے تمہارے؟" اس کی باتوں کے جال میں پھنس کر پوچھتا
ہوں
"اور ۔۔۔ یہ کہہ بس دل ۔۔۔۔ تمنا۔۔۔ اور ۔۔۔ مہر۔۔۔ اس کے سوا کوئی احساس
ہی نہیں تھا۔ یا یوں کہوں کہ محبت نے ہر احساس کو مار دیا ہو۔ " اچانک میری
طرف نظریں کر کے مزید کہتا ہے" اور تمہیں پتا ہے کہ جس وقت میں اس کے ساتھ
نہیں ہوتا تھا تو میں بھی بالکل اسی طرح گلاب کے پھولوں میں اس کے چہرے کو
محسوس کیا کرتا تھا۔ جس طرح آج تم کرن کے چہرے کو ان پھولوں میں محسوس کر
رہے ہو۔۔"
"یہ کیا کہہ رہے ہو تم ۔۔۔۔؟" دوسری طرف چہرہ کر کے کہتا ہوں
"ٹھیک کہہ رہا ہوں میں۔۔۔۔ میری طرف دیکھو ، دانیال!۔۔۔ کیا تم نے یہ جاننے
کی کوشش کی کہ محبت اور پھولوں میں کیا چیز کومن ہے؟" میرا چہرہ اپنی طرف
کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہے
"بس کرو۔۔۔ عامر۔۔۔ پلز۔۔ ۔ بس کرو۔۔۔" میں وہاں سے جاننے کی کوشش کرتا ہوں
مگر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر روک لیتا ہے
" کب تک۔۔۔۔ آخر کب تک؟ تم حقیقت سے منہ موڑو گے؟ سچ تسلیم کیوں نہیں
کرلیتے؟" وہ مصنوعی غصہ میں کہتا ہے
"کیسا سچ ؟؟ کون سا سچ ؟ کس سچ کے بارے میں بات کر رہے ہو تم ؟" نظروں کو
چراتے ہوئے کہتا ہوں
"وہی سچ جو تمہارا دل جانتا ہے اور اچھی طرح تسلیم بھی کرتا ہے مگر تم ۔۔ ۔
۔ ۔نہ صرف اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہو بلکہ۔ ۔ ۔ ۔۔ "اس کے لہجے میں اب
سختی آجاتی ہے
"میں کسی کو کوئی دھوکہ نہیں دے رہا ۔ ۔ ۔" میں بات کاٹ کر دوسری طرف منہ
کر کے جواب دیتا ہوں
"ٹھیک ہے۔ ۔۔ ۔ میں تمہاری بات مان لیتا ہوں۔ ۔۔ ۔ مگر کیا تم یہی بات میری
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکتے ہو ؟؟؟" وہ مجھے میرے بازو سے پکڑتے
ہوئے کہتا ہے لیکن میں اس کی کسی بات کا جواب نہیں دے پاتا۔ میری آنکھیں اس
کا سامنا کر ہی نہیں پارہی تھیں۔ کیونکہ وہ تو سچ کہہ رہا تھا ۔ میری
خاموشی کو دیکھ کر وہ دھیمے لہجے میں کہتا ہے۔
"دیکھ دانیال۔ ۔ ۔محبت زندگی میں صرف ایک بار ہوتی ہے۔ اگر اس کا اظہار نہ
کیا جائے تو یہ ایک طویل درد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ۔ ۔ اس کی اہمیت کو
جانو۔ ۔۔ ۔ اسے محسوس کرنے کی کوشش کرو۔ اور اسے تسلیم کرو۔ میں نہیں جانتا
کہ تم کیوں مسلسل انکار کر ہے ہو اور نہ ہی جاننا چاہتا ہوں مگر ایک بات
یاد رکھو کہ محبت پھول جیسی ہوتی ہے۔ اگر اس کو صحیح وقت پر شاخ سے نہ
اتارا جائے تو ہوا کے جھونکوں سے مٹی ہوجاتی ہے۔ اور اگر ایک بار محبت کا
پھول مٹی میں مل جائے ۔ ۔ ۔ تو ۔ ۔ ۔درد کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ ہو سکے تو
غور ضرور کرنا ۔ ۔ ۔ ۔" یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا جاتا ہے
اس کی ایک ایک بات میرے دل پر اثر کرتی ہے مگر انجانہ سا ڈر ہے جو اس احساس
کو ابھرنے نہیں دیتا ۔ ایسا کیوں ہے اور یہ ڈر کیسا ہے؟ ۔ ۔ ۔میں نہیں
جانتا۔ ۔ مگر ہاں!۔ ۔ ۔ ایک بات سچ ہے۔ ۔۔ جو آج میں تحریر کر رہا ہوں۔
مجھے واقعی کرن سے محبت ہوگئی ہے۔ انکار چاہے جتنا بھی کروں مگر سچ یہی ہے
اور یہ سچ کبھی نہیں بدلے گا۔۔ ایسا کب ہوا؟ کیسے ہوا؟۔ ۔ ۔ میں نہیں
جانتا۔ ۔ ۔ مگر آج اس سچائی کو نہ صرف میں دل سے تسلیم کرتا ہوں بلکہ زبان
سے بھی اقرار کرتا ہوں۔ لیکن اظہار۔ ۔ ۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ ۔ مجھے اس
دن کا انتظار کرنا ہوگا لیکن تب تک مجھے اس باب کو اپنے تک محدود رکھنا
ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی قسط کی جھلکیاں:
اقرار تو ہوگیا۔ ۔۔ ۔ پر اظہار ابھی باقی ہے۔ ۔ ۔ ۔۔ کیسے ہوگا محبت کا
اظہار؟۔ ۔ ۔ یا ۔ ۔۔ پھر ۔ ۔ ۔ ۔رخ بدل لے گی محبت اپنا؟؟؟
جانیے "محبت پھول جیسی ہے" کی اگلی قسط میں
|
|