یکم اکتوبر 2012 بروز سوموار
آج ایسا لگا کہ جیسے ایک بار پھر سے میں نے اس کو کھو دیا۔جس کی چاہت، جس
کے ساتھ ، جس کا وجود حاصل کرنے کے لیے میں نے پانچ سال خرچ کیے ۔ صرف ایک
ملاقات۔۔۔ اس کے ساتھ ایک ملاقات نے میری محنت پر پانی پھیر دیا۔
شائد میں ہار گیا۔ ۔ ۔ ۔ پہلی بار ایسا لگا کہ میری محبت دانیال کی محبت کے
سامنے ہار گئی۔میں نے کتنی کوششیں کیں کہ کرن میری ہوجائے، اس کا وجود میرے
نام ہوجائے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوگیا۔ میں نے اس کو تو حاصل کر لیا
مگر اس کا وجود کبھی میرا نہ ہوسکا۔۔۔۔ آج مجھے احساس ہوا کہ میں نے کتنی
بڑی غلطی کی۔کتنا بڑا گنا ہ کیا۔
"پانچ سال پہلے ۔ ۔ ۔۔جس دن مجھے ریسٹورانٹ میں دانیال اور کرن کے رشتے کے
بارے میں پتا چلا تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔دل چاہا کے اسی وقت
دانیال کو قتل کردوں۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی میری کرن سے محبت کرنے کی، اس کے
پاس آنے کی۔ میری جگہ لینے کی۔اس نے میرے اور میری محبت کے درمیان حائل
ہونے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے درمیان رکاوٹ بننے کی کوشش کی ہے۔ ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے اس حائل شدہ رکاوٹ کو ختم کردوں۔مگر اس وقت میں نے جوش کی بجائے ہوش
سے کام لیا۔اگر میں جوش میں آکر دانیال کو نقصان پہنچاتا تو ایسا کرنا مجھے
کرن سے مزید دور کر دیتا۔ہمارے درمیان تلخیاں جنم دے دیتا مگر میں ایسا کسی
بھی قیمت پر نہیں کر سکتا تھا۔اسی لیے اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے ٹھنڈے
دماغ سے سوچا اور پھر ایک پلان بنایا۔ اور اس پر عمل کرنا شروع کیا۔ پلان
کی کامیابی ریسٹورانٹ کی واپسی سے ہی شروع ہوگئی۔ جب میں نے کرن کو یقین
دلایا کہ میں اس کی اور دانیال کی محبت کو قبول کر چکا ہوں۔ ایسا کرنا میرے
لیے بہت مشکل تھا مگر اپنا مقصد پورا کرنا میرے لیے زیادہ اہم تھا۔ اور آخر
کار اسے میری باتوں پر یقین آگیا۔ ایسا میں نے اس لیے کیا تاکہ اس کو کبھی
مجھ پر شک نہ ہو اور میں آسانی سے دونوں کے درمیان تلخیوں کو جنم دے سکوں۔
پلان کا دوسرا دور گھر آنے کے بعد شروع ہوا۔ میں نے ساری سچائی انکل کو بتا
دی۔ جب انکل نرم ہوتے دکھائی دیے تو میں نے ان کو دانیال کے خلاف کردیا
"انکل آپ سمجھ نہیں رہے۔۔ وہ صرف کرن سے محبت کرنے کا ڈھونگ کررہا ہے۔وہ
صرف اس کی دولت کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اور یقین مانیں کہ کرن اس کے ساتھ
کبھی خوش نہیں رہ سکتی۔ بھلا، ایک مڈل کلاس لڑکا کیونکر ایک اپر کلاس لڑکی
سے شادی کے خواب دیکھے گا۔ محبت ہمیشہ اپنے برابر کے لوگوں میں ہوتی ہے۔اور
اگر کلاس کا فرق آجائے تو وہ خود غرضی ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی اونچے خاندان سے
ہوتا تو میں کبھی نا نہیں کہتا بلکہ آپ کو خود راضی کرتا کہ آپ ان کی شادی
کر وادیں۔ مگر جو حالت میں اس کی دیکھ کر آ رہا ہوں وہ میں لفظوں میں نہیں
بتا سکتا۔ جو اپنے حالت خود نہیں سنبھال سکتا وہ کیسے کرن کو سنبھالے گا؟
آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔ ۔۔۔۔ آپ جو فیصلہ کریں گے۔ مجھے منظور ہوگا۔۔۔"
آخر کار وہ میری باتوں آہی گئے۔جس کا ثبوت انہوں نے اس دیا جس دن دانیال
آنے والا تھا۔
"بیٹا! کرن کو کسی بھی طرح اس لڑکے سے ملنے نہیں دینا۔۔!"
" مگر کیسے۔۔۔۔" حیرانی سے پوچھا
"یہ مجھے نہیں پتا۔۔! مگر یہ بات پکی ہے کہ کسی بھی قیمت پر کرن اس لڑکے سے
نہیں ملے گی۔۔"
"بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر۔۔۔ کرن کو کیسے سمجھایا جائے۔ وہ تو صبح سے اس
کا انتظار کر ہی ہے۔۔۔" ایک پل کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے
"ویسے ایک پلان ہے۔۔۔" انکل نے کہا
"کیا انکل ؟"
"تم اس کو نیند کے گولیاں دے دو۔۔"
"مگر ۔۔۔۔۔۔" حیران ہوکر کہا
"مگر وگر۔۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔۔ بس کسی بھی طرح کرن کو اس لڑکے سے ملنے سے روکنا
ہوگا۔"
بظاہر میں نے پریشانی ظاہر کی مگر دل میں خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ اور پھر
آگے جو ہوا وہ سب پلان کے مطابق رہا۔ جب دانیال آیا تو کرن سے ملاقات نہ
ہوسکی اور الٹا اس کی الجھنوں میں ڈال کر رخصت کیا۔ بے چارہ یہ بھی نہ سمجھ
سکا کہ بھلا کوئی کیسے کسی کی خاطر اپنی بیٹی کو پانچ سال انتظار کرواسکتا
ہے۔ اس کے جانے کے بعد جب کرن کو ہوش آیا تو شام ہو چکی تھی مگر وہ اب بھی
اس کے انتظار میں پاگل ہوئے جارہی تھی۔ اس کا فون ٹرائے کرتی رہی ۔ ایک پل
کے لیے تو مجھے لگا کہ شائد وہ اپنا وعدہ وفا نہ کرے مگر پاگل نے میری اس
ڈر کو بھی مٹا دیا۔کئی دن تک وہ اس کے فون کا انتظار کرتی رہی ۔ اس کی حالت
کو دیکھ کر مجھے بھی پریشانی ہونے لگی اور انکل بھی پریشان رہنے لگے۔ تو اس
وقت مجھے ایسا لگا کہ کہیں میں اس کو ہمیشہ کے لیے کھو نہ دوں۔ تو اس کا حل
بھی میں نے تلاش کرلیا۔ ایک شام ایک انجان نمبر سے کرن کو میسج کیا اور اس
کو دانیال کے نام سے منسوب کردیا۔جس کا نتیجہ مثبت نکلا۔ میری محنت کا پھل
مل گیا۔ کرن دانیال سے نفرت کرنے لگی۔ اس نے اپنی زندگی کو دانیال کے
انتظار اور اس کی یادوں کے سہارے جینے کی بجائے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
مجھے کافی خوشی ہوئی کہ وہ اب دانیال کو بھولنے لگی ہے۔ اب مجھے دوبارہ اس
کو شادی کے لیے پوچھنا ہوگا کیونکہ میرا مقصد تو یہی تھا مگر کیسے پوچھوں؟
یہ کام میرے لیے انتہائی مشکل تھا۔ ابھی وقت بھی زیادہ نہیں گزرا تھا۔ ایسے
میں اگر میں اس کو مجبور کرتا تو اس کو مجھ پر شک ہو سکتا تھا۔ اس لیے صحیح
وقت کا انتظار کرنے لگا۔لیکن کہیں دیر نہ ہوجائے۔۔۔۔ اسی طرح کے کئی سوالات
اور خوف مجھ پر حاوی ہونے لگے۔ اب میں اسے کھو نہیں سکتا تھا۔مجھے کسی بھی
حالت میں اس کو حاصل کرنا تھا۔ لیکن اس بار بھی قسمت مجھ پر مہربان تھی۔
میرے سارے خدشات غلط ثابت ہوئے۔ مجھے کچھ کہنے یا پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس
نہیں ہوئی کیونکہ کرن نے خود اس بات کا اظہار کیا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا
چاہتی ہے۔ میں نے بھی وقت ضائع کیے بغیر ہاں کردی۔ پھر ہماری زندگی ایک نئے
سفر پر چل پڑی۔
اور آج یہ سفر اپنے انجام کو پہنچتے دکھائی دے رہا ہے۔ جس باغ کو سجاتے
سجاتے مجھے پانچ سال بیتے ۔ ایک پل میں اجڑتے دکھائی دینے لگا۔ اس کا احساس
تو مجھے پچھلے کئی دن سے ہورہا تھا۔ دل میں ایک انجانہ سا خوف جنم لے رہا
تھا مگر اس خوف کی جھلک تب دیکھی جب اپنے ماضی کو سامنے پایا۔ ۔۔۔۔ جی
ہاں۔۔۔۔ سکول میں جب دانیال کو دیکھا تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
ایسا لگا کہ سب اجڑ جائے گا۔ کچھ باقی نہیں رہے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ ان
کا آمنا سامنا تو ہوا لیکن سوائے خاموشی کے کسی بات نے ڈیرے نہیں جمائے۔مگر
ان کی یہ خاموشی ، ان کے بولنے سے زیادہ تکلیف دے تھی۔ جب میں نے دانیال کے
چہرے پر کئی سوال دیکھے تو اسی وقت کرن کا چہرہ بھی عجیب تاثر دینے لگا۔
دبی محبت اس کے غصے پر غالب آگئی۔ اگر چہ اس نے دانیال کے سامنے میرا ہاتھ
پکڑا تھا۔ مگر محض دکھاوے کے لیے۔ اس کے بالکل پاس ہوتے ہوئے بھی میں اس کو
بہت دور محسوس کر رہا تھا۔ اپنائیت کہیں کھو گئی تھی۔ ریاکاری غالب تھی۔۔
اس کے چہرے پر عجیب تاثرات جنم لے رہے تھے۔ جاتے وقت بھی اس کے قدم
لڑکھڑانے لگے۔ میں مہک کے ساتھ واپس ہونے کے لیے مڑا لیکن اس کا چہرہ ابھی
بھی دانیال کو تک رہا تھا۔ جیسے اس کا دل پکار پکار کر کہہ رہا ہو۔
بہت دیر کر دی
مہرباں آتے آتے
مگر اس دیر پر بھی وہ اس کے لیے کشش رکھتی تھی۔گھر آکر بھی اس کا چہرہ بجھا
بجھا رہا۔ اس کی خاموشی اس کا حال دل صاف بتا رہی تھی۔ اگر چہ اس نے مجھ سے
کوئی بات نہیں کی مگر میں جان گیا کہ کہیں نا کہیں آج بھی اس کے دل میں
دانیال کے لیے جگہ ہے۔ وہ جگہ جو میں ختم کرنا چا ہتا تھا۔۔۔ آج بھی زندہ
ہے۔آج بھی وہ اس سے محبت کرتی ہے۔ جس کو میں نے مارنے کی کوشش کی وہ محبت
آج بھی زندہ ہے۔ شائد میں نے بہت بری غلطی کی۔یا پھر گناہ کیا۔۔۔۔ آج مجھے
احساس ہوا کہ میں غلطی پر تھا۔ ان دونوں کو دور کر کے نہ صرف میں نے اپنی
زندگی کو برباد کیا بلکہ ان دونوں کو بھی جہنم میں دھکیل دیا۔ پچھلے پانچ
سالوں سے جو میں محبت سمجھ رہا تھا ۔ آج ایسا لگا کہ وہ محبت نہیں سمجھوتا
تھا۔جو اس نے میرے پیدا کیے گئے حالات کی وجہ سے کیا تھا۔میں بھی کس قدر بے
وقوف تھا۔۔۔۔ شائد اندھا ہوگیا تھا۔ اپنی انا میں۔۔۔ میں کسی بھی قیمت پر
کرن کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اور یہ بھول گیا تھا کہ محبت تو قسمت سے ملتی
ہے۔ زور ذبردستی سے محبت حاصل نہیں کی جاسکتی۔۔۔۔ محبت تو دانیال نے کی
تھی۔ قربانی تو اس نے دی تھی۔ جو محبت کا عروج ہے۔ قربانی کے بغیر محبت کی
خوشبو کو محسوس ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کاش یہ احساس بہت
پہلے ہوجاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پہلے محبت کی حقیقت جان
لیتا۔۔۔۔ کتنا پاگل تھا میں۔۔۔۔۔
پانچ سال پہلے جب میں نے کوڑے دان سے کرن کی ڈآئرہ اٹھائی تھی تو یہ جان کر
بہت خوشی ہوئی تھی کہ وہ دانیال سے نفرت کرنے لگی ہے۔ جو الفاظ اس نے
دانیال کے لیے استعمال کیے تھے ، پڑھ کر دلی اطمینان ہوا مگر نادان ۔۔۔۔۔
یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس کی محبت کبھی ختم ہی نہیں ہوئی تھی۔ اور نہ ہی ہو
سکے گی۔ اس کی زندگی دانیال سے شروع ہو کر دانیال پر ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ
اس کی ڈائری کا آخری لفظ بھی دانیال تھا۔ نفرت کے باوجود وہ اس کانام بار
بار مخاطب کر رہی تھی۔ اور یہی تو محبت ہوتی ہے۔ بلکہ محبت کا کمال عروج
ہے۔ جس کو نہ وہ سمجھ پائی اور نہ میں ۔۔۔۔ اور آج۔۔۔۔
جو آگ میں نے پانچ سال پہلے لگائی تھی اس کے بجھانے کا وقت آگیا۔ اس کا
انجام میں جانتا ہوں مگر شائد یہی بہتر ہوگا۔ اب بس دانیال سے ملکر ایک بار
معافی مانگ لوں ۔۔۔ پھر۔۔۔۔ بس۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
|