یکم جولائی 2007 بروز اتوار
جہاں ایک سفر ختم ہوا، وہیں دوسرے سفر کا آغاز ہوا ۔ زندگی نے ایک پراؤ تو
پار کر لیا اب بس ایک آخری پراؤ باقی ہے۔ اس کے بعد ہمیشہ کے لیے منزل مل
جائے گی اور اسی پراؤ کو پار کرنے کی غرض سے مجھے آج واپسی کا سفر کرنا تھا
۔ سوچا تو یہ تھا کہ یہ سفر آسان ہوگا مگر سوچ تو سوچ ہوتی ہے۔ زندگی ہمیشہ
ہماری سوچ کے مطابق چلے ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا ۔پورےسفر کے دوران
دانیال کی باتیں میرے ذہن میں گردش کرتی رہیں۔ اس نے مجھ سے ایسی باتیں
کیوں کی؟ آخر اس سب کا مقصد کیا تھا؟آخر کس خوف نے اس کو اِس قدر پریشان
کیا ہوا تھا؟ آخر وہ کس آنے والے طوفان کی باتیں کررہا تھا؟اس ہی سوالوں کی
کشمکش میں پورا سفر بیت گیا۔آنکھیں بند کرتی تو اس کا چہرہ سامنے آجاتا ۔
آنکھیں کھولتی تو اس کی باتیں گونجنے لگتی۔ اس کا ڈر اب مجھ پر بھی حاوی
ہونے کی کوشش کر رہا تھا مگر میں مسلسل مزاحمت کر رہی تھی اور ہر بار
کامیاب ہوجاتی ۔ یہ کامیابی وقتی تھی۔ ۔ ۔ ۔۔ شائد؟۔۔۔۔
گھر جانے کے بعد ڈیڈی کو کیسے دانیال کے بارے میں بتاؤں گی؟ کیا دانش نے
ڈیڈی سے اس بات کا تذکرہ کیا ہوگا؟ آخر ڈیڈی کا ری ایکشن کیا ہوگا؟ کیا وہ
مان جائیں گے؟ یا پھر۔۔۔؟
لائف کو ہمیشہ اپنے سٹائل سے جینے والی لڑکی آج کیسے ان سب رشتوں کے بارے
میں سوچنے لگی۔ مجھے خود خاصی حیرت ہورہی تھی کہ میں ایسی کب تھی؟ یہ وقت
کا تقاضا تھا یا محبت نے سب کچھ سکھا دیا۔ کیا واقعی محبت نے میرے اندر
اتنی زیادہ تبدیلی پیدا کردی؟ کل تک جو خواب صرف میرے تھے ، آج ان میں کوئی
اور بھی شریک ہوگیا۔ بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ خواب کا رخ ہی تبدیل
ہوگیا۔کل تک سب کچھ پالینے کی تمنا تھی اور آج صرف ایک شخص کی آرزو رہ
گئی۔۔۔
ان سب سوچوں میں گھر تک کیسے پہنچ گئی پتا ہی نہیں چلا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا
جیسے چھوڑ کر گئی تھی۔ ہر چیز اپنی مقررہ جگہ پر ہی تھی۔ بدلا کچھ بھی نہیں
تھا سوائے دل کی کیفیت کے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
4 جولائی 2007 بروز بدھ
ڈیڈی سے دانیال کے بارےمیں بات کرنا اتنا آسان نہ تھا جتنا میں سمجھ رہی
تھی۔ بلکہ میں جتنا اس کو easy سمجھ رہی تھی یہ اتنا ہی مشکل نکلا۔ اگر
دانش میرا ساتھ نہ دیتا تو شائد میں کبھی اپنے دل کی بات ڈیڈی سے کر ہی
نہیں پاتی اور نہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو پاتی ۔
"ڈیڈی میری بات سننے کی کوشش تو کریں۔۔۔" ان کے پاس جاتے ہوئے کہتی ہوں
"مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی۔ آج تک میں نے تمہاری ہر جائز ، ناجائز
بات کو مانا ہے مگر یہ۔ ۔ ۔ ۔ اس بار نہیں۔۔" غصہ میں دوسری طرف منہ کرتے
ہوئے جواب دیتے ہیں
" پلز ڈیڈی ۔۔ ۔ ۔ "
"نہیں۔ ۔ ۔ کبھی نہیں، جیسا تم چاہتی ہو۔ وہ کبھی نہیں ہوسکتا۔" اپنا
ٖفیصلہ سناتے ہوئے کہتے ہیں
"مگر کیوں نہیں؟۔۔۔۔ " ان سے دلیل طلب کرتی ہوں
"بس میں نے کہہ دیا نا۔۔۔! تم اس لڑکے کو بھول جاؤ۔۔۔ تو بھول جاؤ۔۔" عقابی
نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں
ان سب باتون کے دوران دانش خاموشی سے کھڑا رہتا ہے اور ایک لفظ بھی نہیں
بولتا، شائد صحیح وقت کا انتظار کر رہا ہوتا ہے
"پلز ۔ ۔ ۔۔ ڈیڈی ایک بار دانیال سے مل کر تو دیکھیں۔ وہ بہت اچھا لڑکا ہے"
"میں نے کہا نا۔۔۔ مجھے کسی سے نہیں ملنا۔۔۔۔ یہ بات تم اپنے دماغ میں بٹھا
لو۔۔۔"
"اگر آپ یہ ضد یہ تو میری بھی یہ ضِد ہے۔ میں شادی کروں گی تو صرف اور صرف
دانیال سے کروں گی اور کسی سے نہیں۔۔۔" غصہ کے اندر میں بھی اپنا فیصلہ ان
کو سنا دیتی ہوں
"تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو؟۔۔۔۔ تم نے یہ سب کچھ ایک کھیل سمجھ رکھا ہے
کیا؟ یہ منگنی ۔۔ ۔ ۔ یہ شادی تمہارے لیے کیا صرف کھیل ہیں؟ کہ جب دل چاہا،
جس سے چاہا کھیل لیا۔۔۔۔ اور جب دل اکتاجائے اسے باہر کر دیا۔۔"
ان کے اشارے کو میں فوراً بھانپ لیتی ہوں
""ڈیڈی ۔۔۔ جب دانش کو کوئی اعتراض نہیں تو آپ کو کیوں؟۔۔۔۔" دانش کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہوں
"ہاں انکل۔۔۔۔ مجھے واقعی کوئی اعتراض نہیں ہے۔" وہ فوراً میری بات کو کاٹ
کر اپنی خاموشی کو توڑ دیتا ہے
"دانش؟۔۔۔۔ تم بھی اس کی باتوں میں آگئے۔۔" حیرت سے پوچھتے ہیں
"انکل۔۔۔۔ میں کسی کی باتوں میں نہیں آیا، میں تو صرف کرن کی خوشی چاہتا
ہوں اگر وہ کسی اور کے ساتھ خوش رہ سکتی ہے تو میں اس کو اپنے ساتھ شادی
کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔۔۔" دلیل دیتے ہوئے کہتا ہے
"اب تم اس کی حمایت کر کے اس کا حوصلہ مزید بڑھا رہے ہو۔۔۔"
"میں جانتا ہوں۔۔۔۔ مگر آپ سمجھ نہیں رہے۔۔۔" وہ کہتا ہے
" میں سب کچھ سمجھ رہا ہوں ۔۔۔۔ مگر تم کیا کر رہے ہو تم جانتے بھی ہو؟"
" جی انکل۔۔۔۔ میں اپنی دوست کا ساتھ دے رہا ہوں۔۔۔"
میں اس کی طرف چمکتی آنکھوں سے دیکھتی ہوں ۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ اتنی
جلدی میری احساسات کو سمجھ گیا اور نہ صرف سمجھا بلکہ ڈیڈی کے سامنے میری
باتوں کی حمایت بھی کر رہا ہے
" اس کا مطلب تم جانتے بھی ہو؟ دانش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ منگنی؟" سوالیہ
انداز میں پوچھتے ہیں
"میں جانتا ہوں اور ویسے بھی منگنی کیا ہے۔۔۔۔ صرف انگوٹھی پہنانے سے کوئی
دل میں جگہ نہیں بنا لیتا اور یہ بھی ضروری تو نہیں کہ جیسا آپ چاہیں ویسا
ہی ہو۔ جس کو آُپ چاہیں ، وہ بھی آپ کو چاہے۔۔۔" وہ ڈیدی کی بات کاٹتے ہوئے
مزید کہتا ہے" میری لیے تو یہی کافی ہے کہ مجھے کرن کا ساتھ تو ملا اگرچہ
چند ہفتوں کے لیے ہی سہی۔۔۔ اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اس نے مجھ سے
کوئی بات نیں چھپائی ۔ اگر یہ چاہتی تو مجھے اندھیرے میں رکھ سکتی تھی اور
اگر یہ مجھے وقت پر اصل بات نہیں بتاتی تو شائد میں بھی آج آپ کی طرح اس سے
سوال و جواب کر رہا ہوتا ۔۔"
"انکل پلز۔۔۔۔۔ ایک بار دانیال سے مل کر تو دیکھیں۔ اس کے بعد آپ کا جو
فیصلہ ہوگا وہ ہمیں منظور ہوگا۔۔" ڈیڈی کے ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے کہتا ہے
"پلز ۔ ۔ ۔ ڈیڈی۔۔۔ بس ایک بار۔۔۔۔ میری خاطر۔۔۔۔" ایک بار پھر اصرار کرتے
ہوئے کہتی ہوں
"ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ ۔ بلا لو۔۔۔ اس کو۔۔۔" منہ بنا کر ہاں کر دیتے ہیں
یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہیں رہتی ۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں ہوا میں اڑ
رہی ہوں اور فوراً ان کے گلے لگ جاتی ہوں
"تھینک یو ڈیڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔ مجھے یقین تھا کہ آپ ضرور
مان جائیں گے۔۔"
" بہت ضِدی ہو تم۔۔۔۔ کیسے نہیں مانتا۔۔۔" میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے
کہتے ہیں
"آپ سب سے اچھے ڈیڈی ہیں۔۔۔۔" خوشی میں کہتی ہوں
"بس۔۔۔ بس اب زیادہ مجھن نہ لگاؤ۔۔" وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں
"ڈیڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اب میں فوراً سے پہلے دانیال کو جا کر فون کرتی ہو ں اور
اس کو کہتی ہوں کہ جتنی جلدی ہو سکے آجائے۔۔۔۔" یہ کہہ کر میں کمرے میں چلی
جاتی ہوں اور اسے فون کرتی ہوں۔ وہ یہ سن کر بہت خوش ہوتا ہے
"اب تو ڈر ختم ہو گیا نا۔۔۔۔"
"ہاں۔۔۔۔۔" اس کی آواز میں تازگی ہوتی ہے
"میں نے کہا تھا نا۔۔۔ کہ ڈیڈی مان جائیں گے۔۔۔۔ بس اب تم جلدی سے
آجاؤ۔۔۔۔۔ بلکہ ہوسکے تو کل ہی آجانا۔۔۔"
"ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔۔ میرا بس چلے تو میں ابھی اڑ کر تمہارے پاس آجاتا مگر کیا
کروں آنا تو کل ہی پڑے گا نا۔ ۔۔ ۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی قسط کی جھلکیاں:
جب چلنے لگے ٹھنڈی ہوائیں۔۔۔۔ تو آتا ہے ایک نیا طوفان۔۔۔۔
دانیال اور کرن کی محبت کو ۔۔۔۔ اب سامنا ہوگا کس مشکل سے؟۔۔۔۔
جانیے "محبت پھول جیسی ہے" کی اگلی قسط میں
|