7 مئی 2012 بروز سوموار
آج جب زندگی کے آئینے سے ماضی کی طرف جھانکتا ہوں تو سوائے اندھیرے کے کچھ
بھی نظر نہیں آتا۔ سب کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دیتا ہے۔وہ خواب جو کبھی
بچپن میں دیکھے تھے۔ پانچ سال پہلے تک صرف خواب تھے۔حقیقت سے ان کا دور دور
تک کوئی رشتہ نہ تھا مگر آج وہی خواب حقیقت کا روپ لے چکے ہیں۔ بلکہ یوں
کہنا بجا ہواگا کہ حقیقت بھی ان خوابوں کی تعبیر پر رشک کرتی ہے۔ پہلے تو
سنا تھا کہ لوگ زندگی میں کھو کر اپنی ذات تک کو بھول جاتے ہیں لیکن ان
پانچ سالوں میں خود کو بھی میں نے اسی طرح محسوس کیا۔سوچتا ہوں کہ اگر یہ
پانچ سال میری زندگی میں نہ آتے تو کیا ہوتا؟ میں تو اپنے وجود، اپنی شخصیت
سے بھی انجان رہتا۔کبھی اپنی ذات تک رسائی نہ کرپاتا۔ ایک بے نام شخص کی
طرح دنیا میں زندگی گزار کر قبر تک پہنچ جاتا۔ اپنی ذات کو حقیقت اور حقیقت
کو اپنی ذات میں ذم کرنے میں جتنا ان پانچ سالوں کا ہاتھ ہے اتنا تو شائد
خود میرا بھی نہیں ہے۔ یہ پانچ سال میری پہچان ہیں۔ میری زندگی ہیں۔ میرا
وجود ہیں۔ میری شناخت ہیں۔ میری کل کائنات ہیں۔اگر کوئی مجھ سے کہے کہ "
میرا سب کچھ لے لو اور اپنے گذشتہ پانچ سال دے دو" تو میرا جواب نہ ہوگا۔
بھلا کوئی اپنی زندگی کسی کو دیتا ہے؟ اپنی شناخت میں کسی کو شریک کرتا ہے؟
نہیں۔۔۔ بالکل نہیں۔۔ کوئی کسی کی خاطر اپنی ذات کی قربانی نہیں دیتا۔
بالکل اسی طرح اگر یہ پانچ سال میری زندگی سے نکال دیے جائیں تو میری زندگی
بے معنی ہوجاتی ہے۔
"سر! ایک گھنٹے بعد آپ کی میٹنگ ہے۔" یادہانی کی غرض سے ایک خوش شکل لڑکی
میرے آفس میں آکر کہتی ہے
میری نظریں اس کی برف اٹھتی ہیں ۔ جن کو وہ فوراً سمجھ جاتی ہے اور خاموشی
سے باہر چلی جاتی ہے۔ اس کے جانے کے بعد ایک بار پھر کھڑکی سے باہر بچوں کو
کھیلتا دیکھ کر سوچ میں ڈوب جاتا ہوں۔
آج شہرت کے جس آسمان پر میں ہوں۔ وہاں میں شائد کبھی پہنچ ہی نہیں پاتا اگر
قربانیاں نہ دی ہوتیں۔ کیونکہ کوئی کامیابی اس وقت تک ملتی ہی نہیں جب تک
اس کے لیے اپنا چین، اپنا سکون قربان نہ کردیا جائے۔ ہر کامیابی، ہر شہرت
قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ زندگی میں سب کچھ پالینا آسان نہیں ۔ہر لمحہ، ہر
قدم پر ایک نئی قربانی۔ کبھی خوشیوں کی قربانی، کبھی چاہتوں کی قربانی،
کبھی ارمانوں کی قربانی تو کبھی زندگی کی قربانی۔ جب زندگی کی قربانی قسمت
نے مانگی تو درد کی شِدت میں اضافہ ہوگیا۔ بہت منت سماجت کی کہ وہ میری
زندگی مجھے لٹا دے۔ اس کے بدلے چاہے تو میری جان لے لے یا چاہے تو وہ سب
کچھ چھین لے وہ اس وقت میرے پاس تھا۔ اور اگر چاہے تو آئندہ مجھے کچھ نہ
دے۔ سوائے میری زندگی کے۔۔۔ میری ماں کے۔ آج بھی ان کو یاد کرنے سے آنسوؤں
کا دریا رواں ہوجاتا ہے۔ ماں چیز ہی ایسی ہے۔ پہلے کتابوں میں پڑھا تھا کہ
ماں کے بغیر گھر ایک قبرستاں کی طرح ہوتا ہے لیکن جس دن میری ماں مجھے چھوڑ
کر گئی ۔ اس دن میرا گھر نہ صرف قبرستان کی شکل اختیار کر گیا بلکہ ایک
دوزخ بن گیا تھا۔ ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ جدائی کی آگ۔ ہر طرف سناٹا ہی
سناٹا۔ ماتم ہی ماتم۔ آنکھیں رو رو کر خشک ہوگئیں۔ مگر دل بھرنے کا نام ہی
نہیں لے رہا تھا۔ سانسیں بھی ایسی ہو گئیں جیسے ہر سانس آخری ہو۔ ہر کسی نے
ناطہ توڑ لیا۔ ماں کی باتیں، ان کی نصیحتیں، سب یاد آنے لگیں۔ ان کا بوسہ
دینا، پیار کرنا، باتیں کرنا، خاموش نظروں سے دیکھنا، میرے لیے کھانا
بنانا، ان کا ڈانٹنا، جھڑکنا، غصہ کرنا، الغرض ایک ایک لمحہ آنکھوں کے
سامنے آکر اس عظیم ہستی کی یاد دلاتا جس نے مجھے جنم دیا، مجھے بولنا
سکھایا، مجھے اس قابل بنایا۔۔۔۔ گھر کی ہر شے آج بھی ان کی یادیں تازہ کر
دیتی ہیں۔
لوگوں کو جب پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔تو کبھی کسی کے پاس جاتے ہیں تو کبھی
کسی سے تذکرہ کرتے ہیں۔لیکن میں۔۔۔۔ میرا تو کوئی بھی اپنا نہیں۔۔۔ کس کے
پاس جا کر آہ زاری کرتا۔ کس کو آواز دیتا۔کس سے اپنے دل کے حالات، اپنا غم
بیان کرتا۔ سوائے اپنی ماں کے مگر آج تو وہ بھی۔۔۔۔۔
ماں جیسی ہستی
دنیا میں ہے کہاں؟
لیکن ان کی یادیں، ان کی دعائیں ہر وقت میرے ساتھ ہیں۔ بس یہی خیال، یہی
یقین مجھے آگے بڑھنے کے لیے اکساتا ہے۔ کبھی زیادہ دل للچاتا تو ماں کی قبر
پر چلاجاتا۔ قبر سے سرہانے بیٹھ کر گھنٹوں ان سے باتیں کرتا۔ اپنا حال دل
بتاتا۔ آج دن میں کیا ہوا؟ مجھے کیا خوشی ملی کون سا رنج میرا مقدر بنا ۔
کس نے کیسا سلوک کیا۔ ایک ایک بات اپنی ماں سے شیئر کرتا۔ اگرچہ وہ میری
بات کا جواب تو نہیں دے سکتی تھیں مگر مجھے سن تو سکتی تھیں۔ سن کر تسلی تو
ضرور دیتی ہونگی۔ میرے لئے دعا تو کرتی ہونگی۔ کبھی کبھی تو رات کاا ندھیرا
چھا جاتا مگر باتیں ختم ہونے کا نام نہ لیتیں اور پھر اچانک اس خیال سے
آنسو بہنے لگتے کہ جب وہ زندہ تھیں تب تو تو نے ان سے باتیں نہیں کیں۔ ان
کے ساتھ اتنا وقت نہیں گزارا۔ ان کا حال معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمیشہ
اپنی زندگی میں الجھا رہا۔ حالات زندگی تجھے اپنے زیر سایہ کیے رہے۔ایک پل
کے لیے بھی تجھے توفیق نہیں ہوئی کہ ماں کے قدموں کو بوسہ ہی دے دے۔ اور جب
آج ان کا سایہ تیرے سر پر نہیں ہے تو تجھے ان کی کمی محسوس ہوتی ہے؟تیرے
اندر ان کی محبت کیسے پیدا ہوگئی؟ کتنا خود غرض ہے تو؟ ان کی یادیں آج
کیونٓں تجھے تڑپاتی ہیں؟ ایک ایک لمحہ ان کی کمی کیوں محسوس ہونے لگی؟ ایسے
میں میں کیا جواب دیتا؟ سوائے اس کے کہ دل پر بوجھ لے کر ان کو الولداع کہ
دینے کے۔ جانے کو تو دل نہیں کرتا مگر شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے ان کا
سامنا کرنے کے قابل نہیں رہتا اور نظریں چرالیتا۔
بس اب آگے نہیں۔۔۔ اب مزید کچھ نہیں لکھ سکتا۔۔۔ پانچ سال کے سفر میں اس
حادثے کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
14 مئی 2012 بروز سوموار
زندگی کو اکیلے کاٹنا انتہائی مشکل ہے۔ پہلے تو نورین سے باتیں کرتے وقت
گزر جاتا تھا لیکن پچھلے ماہ اس کی بھی شادی کر دی۔ میرے سپنے سچ نہیں ہوئے
تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں کسی اور کے سپنوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالوں۔
اپنی بکھری زندگی اور تنہائی کو دور کرنے کے لیے کسی کی زندگی کو روک دوں۔
اب میرے ساتھ صرف اور صرف میں ہوں یا پھر میری تنہائی، میری ذات، میرا
وجود، میرا سٹیٹس، میری کامیابیاں، میری شہرت، میرے خواب اور اس کے علاوہ
کچھ نہیں۔ زندگی کو اتنے عروج پر جب دیکھتا ہوں تو بعض اوقات مجھے اپنے آپ
پر رشک آتا ہے اور سوچتا ہوں کہ کیا یہ سب کچھ میرا ہے؟ کیا یہ سب کچھ میں
نے حاصل کیا ہے یا اس میں کسی کی دعائیں شامل ہیں۔
ان پانچ سالوں کا آغاز بہت کٹھن ہوا۔ سب کچھ پہلے تو ہاتھ سے جاتا محسوس
ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے میں کبھی کامیاب نہیں ہو پاؤں گا۔ صرف بی۔ایس
سے سارے خواب سچ تو نہیں ہوجاتے۔ جدھر جاتا ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی جن
کی تعلیم مجھ سے زیادہ ہوتی لیکن خواب صرف معمولی سے۔ میرے خواب تو آسمان
کو چھونے کے تھے مگر تعلیم۔۔۔۔ ان حالات میں سپنوں کو سچ کرنا انتہائی مشکل
تھا۔ خدا خدا کرکے سٹی ماڈل سکول میں بحثیت ٹیچر جاب ملی۔ تنخواہ تو کم تھی
مگر کامیابی کی سیڑھی پر پہلا قدم تھا۔ ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی کو جاری رکھا
اور ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ آج میں کامیابی کی سیڑھی طے کر چکا ہوں۔
میرے نام سے ساتھ ڈاکٹر لگ چکا ہے۔ آج لوگ مجھے دانیال کی بجائے ڈاکٹر
دانیال کہہ کر پکارتے ہیں۔ جس سکول میں میری حیثیت ایک معمولی ٹیچر کی
تھی۔آج نہ صرف اس سکول بلکہ اس سے منسلکہ کالج کا بھی پرنسپل ہوں۔ کامیابی
کے دروازے یہیں پر بند نہیں ہوئے۔ ایک پرائیویٹ ادارے کا سی۔ ای۔ او بھی
ہوں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں۔
"دانیال! تو وہی ہے؟ جو زندگی سے بہت دور تھا۔لوگوں سے بات کرتے ہوئے بھی
تیری آواز کانپتی تھی۔ آج تیری آواز سے لوگ کانپ اٹھتے ہیں۔ کل تک تجھے
اپنی زندگی پر بھی اختیار نہیں تھا اور آج تو تو دوسروں کی زندگی کے فیلےز
بھی کرسکتا ہے۔ہمیشہ سے خواب تھا کہ تیرا ایک چھوٹا سا گھر ہو لیکن کیا
معلوم تھا کہ قسمت نے تیری زندگی میں ایک چھوٹا سا گھر لکھا ہی نہیں تھا
بلکہ ایک عالیشان محل تھا۔جس کا ایک ایک حصہ تیری کامیابی کا ضامن ہوگا۔
اور یہ سب تو نے کس کے لیے حاصل کیا؟ اس کی خاطر جو ابھی تک تجھ سے بے خبر
ہے۔ پانچ سالوں میں ایک بار بھی تیری طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔ تو کیسا ہے؟
کس طرح ہے؟ ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ بات جو بھی ہو۔ حالات جیسے بھی
ہوں۔ میں صرف تمہارا ہوں اور مرتے دم تک تمہارا ہی رہوں گا۔"
ان پانچ سالوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب میرے دل نے تمہیں نہ پکارا
ہو۔ تمہارا نام نہ لیا ہو۔ ہر پل صرف تمہارے بارے میں سوچا۔ تمہاری یادوں
کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا۔ کبھی ان یادوں کو اپنے مصائب کی بھنک تک نہیں
ہونے دی۔ اور آج میں اس مقام تک پہنچ چکا ہوں جس کا میں نے وعدہ کیا تھا۔
سوچتا ہوں کہ ابھی تمہارے پاس آجاؤں۔ لیکن ابھی وقت ہے۔ صرف دو ماہ ۔۔۔ بس
اب جلدی سے یہ دو ماہ گزر جائیں اس کے بعد کوئی بھی مجھے تم سے ملنے سے
نہیں روک سکے گا۔ ان پانچ سالوں میں ایک بار بھی اس ڈائری کو کھول کر نہیں
دیکھا مگر اب تمہاری خوشبو نے مجھے دوبارہ ڈائری لکھےم پر مجبور کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے تم میرے آس پاس ہو۔ یا پھر تمہاری مہک۔ یہ میرا وہم ہے یا پھر
حقیقت؟ وہم تو چند لمحوں کا ہوتا ہے مگر یہ مہک تو مسلسل میرے ساتھ رہتی
ہے۔ ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔
میں اس وقت بھی یہ مہک محسوس کرسکتا ہوں۔ ۔۔۔۔ مہک میں مسلسل اضافہ ہوتا
جارہا ہے۔ دل مچلتا جارہا ہے۔ ایک بار پھر وہی جذبات ابھر رہے ہیں جو پچھلے
چند سالوں سے سوئے ہوئے تھے مگر کیا کروں ؟ نظر کچھ نہیں آرہا۔ وجود نہیں
مل رہا۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی قسط کی جھلکیاں:
پانچ سالوں کی جدائی۔۔۔۔ کامیابی کا سفر۔۔۔۔ کیا بدل گئی ہیں منزلیں۔۔۔۔
کون سی مہک ۔۔۔۔ کر رہا ہے محسوس ۔۔۔۔ اب دانیال؟
جانیے "محبت پھول جیسی ہے" کی اگلی قسط میں |