علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - چھٹی قسط

 بُھول بُھلیاں

سرداور کے جسد خاکی کو آج صبح پوری شان و شوکت کے ساتھ قومی پرچم میں لپیٹ کر ان کے آبائی گاؤں میں دفنا دیا گیا تھا۔ ان کے جنازے میں پاکیشیا کی اعلیٰ سر کاری شخصیات کے علاوہ ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی ۔ جبکہ اس کے علاوہ سارے پاکیشیا میں درورد و سلام کی خصوصی محفلوں کا احتمام بھی کیاگیا۔ آج ہر آنکھ اشکبار تھی ،پاکیشیا کا ہر باشندہ غم سے نڈھال تھا۔ میڈیا پر سر داور کے جنازے کو بھر پور کورج دی گئی تھی، نماز کے بعد میڈیا والے ان کے گھر پہنچ گئے جہاں پر انہوں نے انکی بیوہ کا انٹرویو لیا۔ جو رو رو کر غم سے نڈھال تھیں،ان سے ٹھیک طرح سے بات بھی نہیں کی جارہی تھی۔ پھر میڈیا والوں نے ان کی بیٹی سے بھی گفتگو کی جو پردے میں تھی ۔ اس کا بھی اپنی ماں جیسا حال تھا اس سے بھی بات نہیں ہوپارہی تھی اس پر پرائم چینل والوں نے جلتی پر تیل کا کام یہ کیا کے وہ ساتھ ساتھ علی عمران کی فوٹو بھی چلا رہے تھے۔ تاکہ لوگوں میں علی عمران کے خلاف مزیدنفرت اور اشتعال پیدا ہو۔کچھ چینلز نے بیک گراؤنڈ پر سیڈ میوزک چلا دیا تھا ، الغرض میڈیا والوں کے پاس آج بھی بیچنے کے لئے خوب سامان تھا۔اس کے علاوہ آج بہت بڑی ہائی لیول میٹنگ بھی ہونی تھی،اس حوالے سے بھی پرائم چینل باقی سب پر سبقت لے گیا تھا۔اس کی ریٹنگ کا گراف باقی چینلز سے کہیں آگے تھا۔ احمد منیر کے ترش تجزیے اور تبصرے لوگوں میں خوب مقبول ہورہے تھے۔ لوگ اس کی بات کو بہت سیرئیس لیتے ہوئے ، اسے پاکیشیا کے سب سے بڑے صحافی کی حیثیت سے کافی پسند کررہے تھے۔ ان کے نزدیک جو رائے اس کی تھی وہی درست اور حر ف آخر تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
صدر ہاؤس میں اس وقت سکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔میڈیا کو اس ٹاپ سیکرٹ ہائی لیول میٹنگ میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ان کے لئے اعلان کیا گیا تھا کے میٹنگ کے بعد میڈیا کے لئے باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا اور جو میٹنگ میں طے کیا جائے گا ان کے چیدہ چیدہ نکات اس اعلامیے میں موجود ہونگے۔ میٹنگ ایک بہت بڑے ہال نما کمرے میں ہورہی تھی جہاں پر صرف ان وی آئی پی لوگوں کو جانے کی اجازت تھی جن کے اجازت نامے موجود تھے ۔دیگر افراد صرف گیسٹ روم میں ویٹ کر سکتے تھے۔ جہاں پر ان کی بھرپور مہمان نوازی کی جاتی تھی۔ صدر ہاؤس کا اپنا عملہ ہزاروں افراد پر مشتمل تھا جن میں اسپیشل شف سے لیکر اسکیورٹی ، پروٹوکول آفیسرز ،پی ایز ، سیکٹریز اور دیگر سٹاف شامل تھا۔ صدر ہاؤس کی اسکیورٹی کو چارحصوں میں منقسم کیا گیا تھا۔ حفاظت کا پہلا دستہ صدر صاحب سے بالکل سائے کی طرح چپکا رہتا تھا،دوسرا حصہ صدر ہاؤس کی عمارت کے اندر موجود ہوتا تھا، تیسرا حصہ صدر ہاؤس کی عمارت کے باہر جبکہ چوتھا اور آخری حصہ صدر ہاؤس کی عمارت سے پانچ کلومیڑ کے فاصلے پر ایک چیک پوائنٹ کی صورت میں موجود ہوتاتھا۔ یہ اسکیورٹی جوان جن میں لیڈی آفیسرز بھی ہوتی تھیں ہر وقت الرٹ رہتے تھے اور مختلف شفٹوں میں کام کیا کرتے تھے ۔
میٹنگ ہال نہایت ہی خوب صورت انداز میں سجا ہوا تھا، جس میں دیدہ زیب پردے، قالین، بیش قیمتی فانوس اور اس سے زیادہ قیمتی بڑی میز اور کرسیاں تھیں۔صدر ہاؤس کسی بادشاہ کے محل سے کم نہیں تھا ۔یہ ایک تلخ حقیقت تھی کے بادشاہوں کا دور بظاہر ختم ہوگیا تھا ، مگر آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں سربراہ مملیکت کسی بادشاہ سے کم زندگی نہیں گذار رہے تھے۔
میٹنگ ہال میں نشستوں کی ترتیب کچھ یوں تھی کے لمبی سی میز کے آمنے سامنے صدر اور ایکسٹو کی نشستیں مخصوص تھیں جن کے سامنے ٹیبل پر ان کی نیم پلیٹس لگی ہوئی تھیں۔ جبکہ میز کے دائیں بائیں دیگر اہم شخصیات کی نشستیں ایک ترتیب سے ان کے ناموں اور عہدوں کے ساتھ موجو د تھیں۔ اس اہم میٹنگ میں سرسلطان، سر عبدالرحمان اور کیپٹن فیاض بھی مدعو تھے۔
آدھے گھنٹے میں ہال کی نشستیں پر ہوناشروع ہوگئیں اور گھنٹے میں سوائے ایکسٹو اور صدر صاحب کے سب لوگ آگئے تھے ۔ کوئی پندرہ منٹ میں ہال میں ایکسٹو نقاب اوڑھے ، نہایت پر وقار انداز میں اندر داخل ہوئے، تو سب لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ ایکسٹو نے سر کو ہلکی سی جنبش دے کر ان کو سلام کیا اور پھر وہ چلتے ہوئے اپنی مخصوص نشست پر جاکر بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی باقی سب لوگ بھی بیٹھ گئے۔ اب صدر صاحب کا انتظار ہو رہا تھا۔ وہ بھی دو منٹ کے وقفے کے بعدشان سے اندر داخل ہوئے تو سوائے ایکسٹو کے باقی سب لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے کیونکہ ایکسٹو پر کھڑے ہونا لازمی نہیں تھا۔ایکسٹو نے سر کی ہلکی سی جنبش سے ان کو خوش آمدید کہا تو جواباً صدر صاحب نے اپنے دائیں ہاتھ کو الٹا اپنے ماتھے پر لے جاکر نہایت عزت اور وقار سے سلام کیا۔ صدر صاحب اپنی نشست پر بیٹھے ہی تھے کے ان کے پی اے نے جو ایک دیدہ زیب وردی میں ملبوس تھا نہایت احترام کے ساتھ ان کے سامنے ایک نوٹ بک رکھ دی۔ جبکہ اس دوران دیگر صاحبان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تھے۔ صدر صاحب نے رسمی سلام دعا اور ابتدائی کلمات کے بعد کہا:
"مجھے سر داور کی شہادت پر بہت دکھ اور افسوس ہے، ایسا اندوہناک حادثہ ہونا واقعی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ،اس کے علاوہ میڈیا کی سنسنی خیزی نے معاملے کو انتہائی نازک اور حساس بنا دیا ہے۔ اگر اس کیس کا فیصلہ پاکیشیا کی عوام کی اُمنگوں کے عین مطابق نہ ہوا تو مجھے خطرہ ہے کے کہیں یہ غم و غصہ ایک تحریک کی شکل نہ اختیا ر کرلے ۔ پاکیشیا ان دنوں ویسے بھی نازک دور سے گذر رہا ہے، اور ان حالات میں میڈیا کا سادہ لو عوام کو بھڑکانا حالات کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ انہی حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے یہ انتہائی اہم میٹنگ کال کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرداور کی شخصیت کے حوالے سے بھی کچھ عرض کرنے سے قبل ہم ان کے لئے دعائے مغفر ت کریں گے ۔اس کے بعد انکی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی۔" یہ کہتے ہی صدر صاحب نے اپنے ہاتھ دعاکے انداز میں جوڑ لئے اور سر جھکا لیا۔ ان کے احترام میں باقی سب نے بھی ایکسٹو سمیت ہاتھ اُٹھالئے۔ دعا کے بعد دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ اس کے بعد صدر صاحب نے اپنا سلسلہ کلام پھر سے شروع کیا اور کہنے لگے:
"سر داور سے میری کئی بار ملاقات رہی، نہایت نفیس اور عظیم انسان تھے۔ وہ جتنے عظیم انسان تھے ،اتنے ہی عظیم سائنس دان بھی تھے۔ بلا شبہ انکی شہادت سے پاکیشیا کو جتنا نقصان ہوا ہے وہ شاید لفظوں میں سمیٹنا میرے لئے ممکن نہیں۔ ان کی شہادت سے جو خلاء پیدا ہوا اب شاید ہی کبھی پر ہو سکے ۔ مگر میں اپنی قوم سے مایوس نہیں، مجھے اُمید ہے کوئی نہ کوئی نوجوان ضرور ان کی طرح ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک بڑا سائنس دان بن کر پاکیشیا کا نام ان کی طرح پوری دنیا میں روشن کرے گا۔اسی حوالے سے میں نے چند بہت اہم فیصلے کئے ہیں ، ان میں سے پہلا بہت اہم فیصلہ یہ ہے کہ ، اس نسل سمیت پاکیشیا کی آئندہ آنے والی کئی نسلوں کو ڈاکڑ صاحب کے عظیم کارنامے اور انکی عظیم ایجادات کے حوالے سے پوری آگاہی دی جائے۔ لحاظہ آئندہ سے ڈاکڑ صاحب کے کارنامے ہمارے بچوں کو ان کے تعلیمی کورس میں بطور لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائے جائیں گے۔ تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھی ان جیسے عظیم سائنسدان کو کبھی فراموش نہ کر سکیں۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ میں نے دوسر ا اہم فیصلہ کیا ہے اور وہ یہ کے ان کی شہادت اور بے مثال قربانی کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کی پیدائش کے دن کو پاکیشیا میں "سر داور ڈے" کی حیثیت سے منایا جائے گا۔ کیونکہ انہوں نے اپنی ریسرچ کے دوران پاکیشیا کی خاطر اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا ہے۔ اس دن ملک بھر میں ان کی شخصیت کے حوالے سے مختلف سمینارمنعقد ہونگے اور یہاں صدر ہاؤس میں باقاعدہ سائنس کانفرنس ہوا کرے گی جس میں ملک بھر سے سائنس دان آکر انہیں ٹریبیوٹ پیش کیا کریں گے۔۔۔۔۔۔ اور سب سے آخری اور اہم فیصلہ یہ ہےکےپورے ملک کی تمام درسگارہوں میں جہاں ایم فل اور پی ایچ ڈیزکی ہائر ایجوکیشن دی جاتی ہے وہاں پر سر داور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کئے جائیں گے تاکہ آنے والی نسلوں میں بھی سر داور جیسی صلاحیتوں والے نوجوان تربیت پاکر سامنے آسکیں۔۔۔۔۔۔" انہوں نے اپنی بات میں تھوڑا سا توقف کیا جبکہ اس دوران سب لوگ انکی جانب تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے پھر اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
"اب ہم علی عمران کی جانب آئیں گے، جس کی وجہ سے ہمیں بطور قوم اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا، میں ذاتی طور پر اس سے کئی دفعہ سر سلطان کے توسط سے مل چکا ہوں، کافی باصلاحیت نوجوان ہے اس نے ایک دو بار ذاتی حیثیت میں میری مدر بھی کی اور میرے کچھ پرائیویٹ مسائل کو حل کیا جو بظاہر ناممکن تھے، مجھے اس سے اس قسم کی حرکت کی ہرگز توقع نہیں تھی۔وہ پاکیشیا سیکرٹ سروس میں بھی کسی نہ کسی حیثیت میں کام کرتا رہا ہے اس کی زیادہ تفصیلات تو میرے پاس نہیں ہیں پر میں اس حوالے سے ایکسٹو صاحب آپ کو تکلیف دوں گا کے پلیز اس معاملے پر آپ اپنی رائے سے ہم سب کو مستفید کریں کے آخر اب ہمیں علی عمران کے ساتھ کیا کرنا چاہے۔ اگر یہ مسئلہ فوری حل نہ ہوا تو میڈیا کا یہ طوفان کہیں لاوا بن کر کسی دن پاکیشیا کی سڑکوں پر نہ اُبل پڑے" صدر صاحب نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے بال ایکسٹو کے کورٹ میں ڈال دی۔ کیونکہ یہ واقعی بہت نازک اور سنگین مسئلہ تھا اگر اب ایڈرس نہ کیا جاتا تو اس کی شدت میں کافی اضافہ ہوسکتا تھا۔ میٹنگ میں موجود سب لوگ اب ایکسٹو کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔
"وہ مسخرہ اب میرے کسی کام کا نہیں رہا، میرے خیال میں اس کو جلد از جلد فیڈرل کورٹ آف جسٹس کے حوالے کردینا چاہیے اور اس ٹرائل کی معیاد بھی صرف ایک دن ہونی چاہیے جس میں عدالتی قوانین کے برعکس تاریخ میں پہلی دفعہ میڈیا کو بھی فل کورٹ ٹرائل کی لائیو کورج دی جانی چاہیے تاکہ میڈیا کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی سب کچھ گھر بیٹھے پتہ چل جائے ۔ اس ٹرائل کو باؤنڈ کردیا جائے کے اس کا فیصلہ اسی روز شام میں سنادیا جائے گا، جتنا جلدی ہو سکے کیس کو نپٹا دیا جائے تاکہ ہم پاکیشیا کے دیگر مسائل پر توجہ دے سکیں اور عدالت جو فیصلہ کرے گی ہمیں اس کا احترام کرنا چاہے ، میڈیا تو پہلے ہی کر تا ہے ۔ مجھے امید ہے یہ سارا طوفان ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ختم ہوجائے گا اور عوام اور میڈ یا دونوں کو سکون آجائے گا۔ جو میڈیا کو مصالحہ چاہیے وہ ان کو مل جائے اور عوام جو فوری انصاف چاہتے ہیں ان کو بھی انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا ۔۔۔" ایکسٹو کی کرخت مگر دلائل سے بھرپور گفتگو نے سب کو حیران کردیا تھا۔ انہیں شاید یہ اُمید نہیں تھی کے یہ مسئلہ کبھی اتنے جلد ی بھی حل ہوسکتا ہے لیکن ایکسٹو کے ذہانت سے بھرپور مشوروں نے لگتا تھا کے سب کو قائل کرلیا ہے۔ یہ اتنا منطقی حل تھا کے بظاہر اس سے بہتر حل نظر نہیں آرہا تھا۔
"ایکسٹو صاحب مجھے آپ سے یہی امید تھی کے آپ یہ مسئلہ جو اتنا سنگین ہوچکا ہے، فوراً حل کردیں گے، بہت معقول مشورے دیے ہیں آپ نے۔ میں آج ہی ایک صدراتی آرڈیننس جاری کردیتا ہوں کے عدالت اپنے تمام اہم قانونی کیسز کو وقتی طور پر ملتوی کردے اور پرسوں یعنی اس ماہ کی پندرہ تاریخ کو بروز بدھ پاکیشیا اور علی عمران کی زندگی کا سب سے اہم دن ہوگا۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کے یہ کیس جتنا جلدی ممکن ہوسکے ،ختم کیا جائے اور اسی لیئے میڈیا کو بھی اس ٹرائل کی مکمل کورج کی اجازت ملنی چاہیے اور فیصلہ بھی اسی روز ہوجانا چاہیے۔ ساتھ میں عدالت کو بھی یہ باؤنڈ کیا جائے کے عدالت اپنے فیصلے کو بھی جلد ازجلد عمل درآمد کروائے تاکہ پوری قوم میں جو اس وقت ایک ہیجانی کیفیت بپا ہے اس کا خاتمہ ہو سکے ۔ اب میٹنگ پرخاست کی جاتی ہے۔ " یہ کہتے ہی صدر صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور وہا ں سے چلے گئے جبکہ اس کے بعد ایکسٹو کی باری آئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
عامر جیسے ہی جوزف کی ٹیبل سے اٹھ کر جانے لگا تو ساتھ والی ٹیبل سے ایک اور شخص بھی اٹھا ا ور وہ عامر کے پیچھے ہولیا۔ عامر وہاں سے نکل کر لفٹ میں آیا اور لفٹ میں ایک بٹن پریس کرکے سیدھا کھڑا ہوگیا، لفٹ کے ڈورز ابھی بند ہونے ہی والے تھے اور تقریبا ًہو ہی چکے تھے کے وہ شخص بھی تیر کی طر ح لفٹ کا دروازہ درمیان سے پھاڑتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔ اس شخص نے ایک دفعہ مسکرا کرعامر کی جانب دیکھ کر سر کو ہلکا سا ہلایا اور پھر وہ ایک سائیڈ پر لاپرواہی سے کھڑا ہوگیا۔ عامر بھی اس کی جانب دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور پھر وہ منہ پھیر کر ساتھ کھڑے ہوئے گارڈ کی جانب دیکھنے لگا۔ آٹومیٹک لفٹ اب ایک جھٹکے کے ساتھ گرؤانڈ فلور پر جانے لگی جو دوسرا شخص لفٹ میں داخل ہوا تھا وہ کوئی اورنہیں بلکہ مقامی میک اپ میں صفدر تھا۔
لفٹ گراؤنڈ فلورپر آئی تو لفٹ کے دوڑز درمیان سے پھٹ کے سائیڈ پر ہوئے تو سب سے پہلے عامر تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا پارکنگ کی جانب بڑھ گیا اس وقت رات کے نو کا عمل تھا، مگر پاکیشیا کی سڑکیں اس وقت دن کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ ہوٹل سٹار سی ون کی پارکنگ انڈر گراؤنڈ تھی ۔ صفدر بھی اس کے پیچھے تھا،عامر تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا اپنی کار کی جانب بڑھ گیا اور پھر وہ کار وہاں سے نکالتا ہوا، پاکیشیاکی پررونق سڑکوں پر گھومانے لگا۔صفدر بھی مہارت کے ساتھ محتاط اندز سے اپنی کار میں اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ مختلف سگنلز پر جب عامر کی کار رش کی وجہ سے تقریباً گم ہوجاتی تھی مگر اس وقت بھی صفدر کی تیز نظریں اسے تلاش کرلیتی تھیں۔ اگر وہاں روشنی بھی نہ ہوتی اور مکمل اندھیرا ہوتا تب بھی صفدر سے گاڑی چھانا یا گم کرنا بڑا مشکل تھا۔ بعدازں مختلف سڑکوں سے گذرنے کے بعد د عامر نے ایک بہت بڑی بلڈنگ کے آہنی گیٹ کے سامنے اپنی کار روک دی۔ اس کو مسلسل گاڑی چلاتے ہوئے ایک گھنٹہ ہوگیا تھا۔صفدر نے بھی ایک مناسب فاصلے پر اپنی کار روک دی۔ پھر بلڈنگ کا گیٹ کا کھلا اور عامر اپنی کار اس بلڈنگ کے اندر لے گیا ۔ اس بلڈنگ کو غور سے دیکھنے کے بعد صفدر نے بے اختیار اپنے سر پر ہاتھ پھیر لیاکیونکہ اس بلڈنگ کو وہ لاکھوں میں پہنچاتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ٹائیگر زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا جبکہ ٹیبل نمبر پانچ پر کیپٹن شکیل بھی موجود تھا اور کسی کے ساتھ گیم کھیل کر رہا تھا۔وہ یہ سارا منظر خاموشی سے دیکھ رہا تھا،اس نے اتنا کمال میک اپ کیا ہوا تھا کے ٹائیگر جیسا ماہر شخص بھی اسے پہچان نہیں سکا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کے وہ ہر دفعہ مختلف قسم کا میک اپ اس مہارت سے کرتا تھا جو گزشتہ سے بالکل مختلف ہوتا تھا، اسے سوائے عمران کے اور کوئی نہیں پہچان سکتا تھا۔اس دوران سر بلیک کوبرا اس کے سامنے کوٹ پہنتے ہوئے گذر رہا تھا اور اس کا سارا دھیان اس کی طرف تھا۔
کیپٹن شکیل کے یہاں آنے کے بعد دو ہی آپشنز تھے ایک یہ کے وہ ٹائیگر کو فری ہینڈ دے جو اس نے دیا تھا اور دوسرا وہ اب اختیار کرنے جارہاتھا۔ اس نے ٹیبل پر موجود آخری با ل پاٹ کی اور اسٹک ٹیبل سے ٹیک لگا کر رکھی اور سر بلیک کوبرا کے پیچھے ہولیا۔ اسے ٹائیگر کے انجام پر بہت افسوس ہوا تھا، وہ اس کا ساتھی تھا ،جس نے کئی بار پاکیشیا سیکر ٹ سروس کو مشکل ترین حالات سے تنہا ہی نکالا تھا،مگر اب اسے مجبوراً ٹائیگر کو اس کے حال پر چھوڑ کر سر بلیک کوبرا کے پیچھے جانا تھا۔ سیکرٹ سروس میں رہ کر انسان کو کئی دفعہ پتھر جیسابے حس ہونا پڑتا ہے یہاں جذبات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ کیپٹن شکیل کو پتہ تھا کے اسکے جانے کے بعد ٹائیگر کو ہوٹل کی انتظامیہ اٹھا کر لے جاتی اور اس کا وی آئی پی علاج ہونا تھا لحاظہ وہ ٹائیگر کی جانب سے بے فکر تھا۔
سر بلیک کوبرا لفٹ میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ ہی کیپٹن شکیل بھی لفٹ میں داخل ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے شیڈ والے گلاسز نکال کر پہن لیئے تھے اور پھر اس نے بے پرواہی سے کوٹ کی ایک اور جیب سے موبائل فون نکال کر اس میں مصروف ہوگیا۔جبکہ سربلیک کوبرا اسے گہری مشکوک نظروں سے گھور رہا تھا۔ خیر لفٹ کے گراؤنڈ فلور تک پہنچنے تک کوئی خاص بات نہ ہوئی۔
لفٹ کے رکتے ہی سربلیک کوبرا ہوٹل سٹار سی ون کی عمارت سے باہر نکلا تو اس وقت رات کے گیارہ کا عمل تھا۔سربلیک کوبرا سڑک کراس کرکے ہوٹل سٹار سی ون کے سامنے موجود ایک بہت بڑے چار منزلہ شاپنگ پلازہ کی جانب بڑھ گیا۔ کیپٹن شکیل مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے ماہرانہ اندزا میں اس کے تعاقب میں تھا۔ شاپنگ پلازہ کے قریب پہنچتے ہی سربلیک کوبرا ایک دم سے مڑا اور شاپنگ پلازہ کے پہلو میں انتہائی تنگ سی گلی میں داخل ہوگیا، وہاں کافی اندھیرا تھا،جہاں مشکل سے ایک آدمی ایک وقت میں گذر سکتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سربلیک کوبرا گلی کے موڑ سے مڑ گیا۔ کیپٹن شکیل جیب سے پستول نکال کر اس پر مضبوطی سے ہاتھ جماتا ہوا وہ بھی اس تنگ سی گلی میں داخل ہوگیا۔ تھوڑی سی دیر میں وہ بھی گلی کے موڑ پر پہنچ گیا، وہ جیسے ہی موڑ مڑا اسے دور گلی کے ایک اور موڑ پر سربلیک کوبرا کا ہیولہ سا نظر آیا ۔ کیپٹن شکیل مزید محتا ط انداز میں چلتا ہوا گلی کے موڑ پر پہنچ گیا مگر موڑ پر پہنچتے ہی دوسری طرف اس کے لئے ایک اور مشکل کھڑی ہوئی تھی وہاں سے گلی مزید پانچ گلیاں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ خیر وہ پہلی گلی میں داخل ہوگیا، مگر وہ راستہ شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور پھر بلآخر وہ راستہ آگے جاکر ایک دیوار سے بند ہوگیا۔ وہ واپس پلٹا اور تقریباً بیس منٹ تک وہ اندر ہی گھومتا رہا مگر اسے وہاں سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا وہ عجیب سی بُھول بُھلیاں تھی۔ اندر ہی اندر مزید تنگ سے رستے کھلتے چلے جارہے تھے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ بچوں کی "راستہ تلاش کریں" والی گیم ہو مگر یہاں پر اس کا نام تبدیل ہوکر "سربلیک کوبرا کو تلاش کریں" معلوم ہوتا تھا۔ کیپٹن شکیل جیسا پوری سیکرٹ سروس میں مانا ہوا بہترین دماغ رکھنے والا زندگی میں پہلی بار بالکل چکرا کر رہ گیا تھا۔ وہ بیس منٹ چالیس منٹ میں تبدل ہوئے تو وہ گھوم پھر کر دوبارہ ایک ہی جگہ پر آجاتا تھا۔ خیر اگلے بیس منٹ قسمت اس پر مہربان ہوئی تو بڑی مشکلوں سے اندر تنگ گلیوں میں گھومتے گھوماتے جانے کیسے وہ پانچ گلیوں والے موڑ پر تیسری گلی سے نمودار ہوا تو اس نے بے اختیار گہرا سانس لے لیا۔سربلیک کوبرا اسے بہت بری طرح سے چکما دے کر نکل گیا تھا۔

وہاں اندر چھوٹی بڑی لاتعداد دیواریں اور گلیاں تھیں مگر وہاں پر کسی قسم کا کوئی دروازہ یا کھڑکھی نہیں تھی۔خیر اسے شدید مایوسی ہوئی تھی کے سربلیک کوبرا اسکے ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی انتہائی عیاری سے نکل گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61863 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More