علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - پہلی قسط

“گرفتار کر لو اسے“

سردیوں کی وہ رات نشے سے چور اپنے پورے جوبن پر تھی ،سڑکوں پر اس وقت گاڑیوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ عمران کی کار طوفانی رفتار سے آفیسرز کالونی کی طرف دوڑی چلی جارہی تھی۔ یہ رات کا وہ وقت تھا ،جب رات اگلے پہر میں صبح صادق کو گلے لگا کر اس کی بانہوں میں جانے والی تھی ۔ کچھ دیر قیل جب عمران اپنے فلیٹ میں سوررہا تھا تواچانک ٹیلی فون کال نے اسے جگا دیا ۔یہ کال سرداور کی جانب سے کی گئی تھی جو انتہائی گھبرائے ہوئے تھے۔
"عمران ۔۔۔۔۔۔ میں داور بول رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم تم پلیز ۔۔۔۔۔۔۔ جلدی میرے گھر آجاؤ۔۔۔۔ میری ۔۔جج جان کو خخ ۔۔ خخ ۔۔خطرہ ۔۔۔۔۔۔۔" پھر دوسری جانب سے لائن ڈراپ ہوگئی۔
عمران کی چھٹی حس نے فوراً خطر ے کی گھنٹی بجا دی ، سر داور نے اپنی شخصیت کے بالکل برعکس انتہائی گھبرائی ہوئی آواز میں گفتگو کی تھی ۔ جبکہ وہ نہایت ہی مضبوط اعصاب کے مالک تھے، انہوں نے پوری زندگی کبھی بھی ڈر اور خوف کو اپنے نزدیک نہیں بھٹکنے دیا تھا، اس اعتبار سے انکی شخصیت باقی پاکیشیائی سائنس دانوں سے قدرے مختلف تھی ۔ پاکیشیا کے کئی راز انکے سینے میں دفن تھے اور ان کی پاکیشیا کے لئے بے شمار خدمات تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پاکیشیا کے سب سے بڑے سائنس دان تھے اوران ہی خوبیوں کی بنا پر ان کو ملک بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
مگر اچانک رات کے اس ٹائم ان کو کیا ہوگیا؟ کہیں یہ کوئی ٹریپ تو نہیں؟ ضرور کوئی گڑبڑ ہے ۔ یہ اور اس جیسے کئی سوالات اور وسوسے عمران کے ذہن میں سوئیاں چبھو رہے تھے۔ اسکا ذہن تیزی سے مختلف پہلوؤں پر غور کررہاتھا اور بلآخر اس نے سر داور کے گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے فوراً کپڑے تبدیل کیے ، فلیٹ کو لاک کیا اور گیراج میں آکر کار نکالی اور وہاں سے روانہ ہوگیا۔ سر داور کی فیملی ان دنوں گاؤں میں تھی جہاں ان کی خاندانی زمین کا تنازعہ چل رہا تھا، وہ اپنی بے پناہ مصروفیات کی بنا پر نہیں جاسکے تھے ،اس لئے انہوں نے اپنی فیملی کو بھیج دیا تھا اس امید کیساتھ کے جب وہ فارغ ہونگے تو آجائیں گے ۔ عمران کو یہ بات معلوم تھی کہ وہ ان دنوں اکیلے ہی اپنی سرکاری کوٹھی میں موجود زیر زمین لیبارٹری میں ایک انتہائی اہم ریسرچ کررہے تھے۔ اسکے علا وہ انکی اعلی ٰ حکام سے میٹنگز اور دیگر اہم کانفرنسزز بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھیں ، ان کوحکومت کی طرف سے باقاعدہ پروٹوکول ملا ہوا تھا، خصوصی تربیت یافتہ گارڈز ہمہ وقت انکی کوٹھی میں چوکس رہتے تھے ۔ جب بھی انہیں کہیں جانا ہوتا تو پرٹوکول والی گاڑیاں انکی کوٹھی پر آجاتی ۔وہ کئی دفعہ سرکا ر سے اسکی شکایت بھی کرچکے تھے کہ ان کو کسی قسم کے پروٹوکول کی ضرورت نہیں لیکن ہر بار انہیں یہ کہا جاتا کہ سر آپ ہمارا اثاثہ ہیں ، ملک کے حالات اس وقت ساز گار نہیں ، ملک بھر میں سکیوریٹی ہائی الرٹ ہے ، ہم کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتے لحاظہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں آپکو پرٹوکول لینا پڑے گا۔ مجبوراًا نہیں پورے اعزاز کیساتھ قافلے کی صورت میں جانا پڑتا تھا۔ ان کی بلٹ پروف گاڑی کے آگے پیچھے لاتعداد پولیس ،اسپیشل فورسز کی گاڑیاں اور موٹر بائیکس ہوتی تھیں۔ جبکہ دوسری طرف ان کی کوٹھی والے گارڈز باری باری اپنی ڈیوٹی دیتے تھے، ہر آٹھ گھنٹے کے بعد شفٹ بدلتی تھی اور انکی جگہ نئے چاق و چوبند گارڈز آجاتے تھے۔ وہ گارڈز اسی کوٹھی کی بیک سائیڈ پر کواٹرز میں رہتے تھے،اس کے علاوہ انکی کوٹھی میں کیمرے بھی لگے ہوئے تھے۔جو پوری کوٹھی کو مونیٹر کرتے تھے یہاں تک کہ گارڈز بھی ان سے محفوظ نہیں تھے اور اس کا پورا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم سر داور کے ہاتھ میں تھا، جوان ہی کی لیبارٹری کے ایک حصے میں خصوصی طور پر نصب کیا گیا تھا اور اس سے آگے یہ ایک ماسٹر کمپیوٹر سے منسلک تھا۔ اس کے ساتھ بہت سی ایل سی ڈیز بھی دیوار پر سجی ہوئی تھیں۔ جوپوری کوٹھی کو کمپیوٹر کی مدد سے زوم اِن اور زوم آؤٹ کر کے دیکھانے کی صلاحیت رکھتی تھیں ۔ ایل سی ڈیز پر چوبیس گھنٹےرنگین لائیو فوٹیجز چلتی رہتی تھیں۔ کمپیوٹر میں کوٹھی پر آنے جانےوالے ہر فرد کا ڈیٹا سیو تھا۔ کسی بھی خطرے کی صورت میں یہ آٹومیٹک نظام کے تحت خطرے کا سائرن بجاسکتا تھا مگر گذشتہ آٹھ سالوں سے یہ نو بت نہیں آئی تھی ۔سر داور زیادہ تر اپنے کام میں ہی مشغول رہتے تھے اور انہیں آج تک کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا اور انسانی فطر ت کے عین مطابق انہوں نے اس سسٹم پر اب زیادہ توجہ دینا ہی چھوڑ دیا تھا۔ مگر پھر بھی تھوڑی بہت احتیاط ضرور کرلیتے تھے، یہ جدید ترین نظام ان کو عمران نے ہی نصب کراکردیا تھا ،اکثر ان کی آپس میں ملاقات اور گپ شپ ہوتی رہتی تھی ۔وہ اپنی ریسرچ کے متعلق بہت سے اہم نکُتے اورمسائل کا حل اس سے بحث کرکے پا لیا کرتے تھے۔
مختلف سڑکوں پر گھومنے کے بعد عمرا ن آخر کار آفیسرز کالونی کے سکیوریٹی چیک پوائنٹ پر پہنچ گیا۔ اس پوائنٹ پر اکثر آفسرز اسے جانتے تھے اور انکی عمران سے اچھی خاصی سلام دعا تھی لحاظہ بغیر کسی چیکنگ کے انہوں نے تما م رکاوٹیں ہٹا کراسے کالونی کے اندر جانے دیا۔اس کالونی میں ملک کے نامور سیاست دان ، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات رہائش پذیر تھیں۔ اس لئےاس کالونی کی حفاظت کا خاص انتظام کیا گیا تھا اور یہاں پر کسی بھی انجا ن شخص کا داخلہ ممنوع تھا۔اس کالونی کی تزائین وآرائیش پر بھی خاص توجہ دی گئی تھی ۔جگہ جگہ خوب صورتی کے لئے پودے اور درخت لگائے گئے تھے۔اسٹریٹ لائیٹس موجود تھیں جو رات میں بھی دن کا منظر پیش کرتی تھیں۔اس کالونی کو مختلف بلاکس میں منقسم کرکے پھر اسے انگریزی الفا بٹس سے ترتیب دیا گیا تھا۔ سر داور کی کوٹھی جو سب سے الگ تھلگ تھی ،اس کا نمبر دو سو بائیسواں تھا اور وہ ایف بلاک میں تھی۔
کئی اسٹریٹس کراس کرنے کے بعد عمران سر داور کی کوٹھی کے پھاٹک پر پہنچا ہی تھا کہ اس کے منہ سے بے اختیارسی ٹی نکل گئی ۔ بات ہی کچھ ایسی تھی جس نے اسے قدرے حیران کردیا تھا۔کوٹھی کا پھاٹک نیم کھلا ہوا تھا اور وہا ں کوئی گارڈ موجود نہیں تھا۔کوٹھی پر مکمل اندھیرے کا راج تھا اور ہر طرف سناٹا چھایا ہواتھا۔ یہ بات عام حالات سے بالکل برعکس تھی ، کیونکہ نارمل حالات میں کوٹھی کے پھاٹک پر چار پانچ گارڈز ضرور ہوتے تھے اور کوٹھی پوری رات مکمل طور پر روشن رہتی تھی۔لیکن اب ایسا نہیں تھا جس سے خطرے کے ہونے کا ہر امکان پختہ ہوچلا تھا۔ ایک توسر داور کا بے وقت ٹیلی فون اور اب یہ کوٹھی پر ہو کا عالم ۔
عمران کے چہر ے پر غیر متوقعہ طور پر بلا کی سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ اسے اب شدید خطرے کی بو محسوس ہورہی تھی۔
اس کو دوسری حیرت کا سامنا تب کرنا پڑا جب اس نے اپنی جیب ٹٹولی تو اس کی جیب میں کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ مگر یہ کیسے ہوگیا؟ عمران کو اس بات کی امید نہیں تھی ۔ شاید یہ اس کی زندگی کی پہلی سنگین غلطی تھی اور آخری بھی ثابت ہوسکتی تھی، جس کا احساس اب اس کو شدت سے ہونے لگا۔ مگر آخر ہی وہ انسان تھا کوئی سوپر مین یا کوئی خلائی مخلوق نہیں اور غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی رہی ہوگی کہ سیکریٹ سروس کے پاس گذشتہ چھ ما ہ سے کوئی کیس نہیں تھا اور سارا سارا دن وہ مختلف سڑکوں کی خاک چھانتا رہتا تھا اور رات کو پور ے دن کی آوارہ گردی کے بعد اپنے فلیٹ پر واپس آتا تو موبائل پر ویڈیو گیم کھیل کر یا سلیمان کو تنگ کرکے سو جایا کرتا تھا ۔ بس یہی روٹین تھی اس کی کافی دنوں سے وہ ایکٹو نہیں تھا۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا ؟ اس نے پور ی زندگی خطروں سے کھیلا تھا اور موت کو چکمہ دیتے ہوئےنکلتا تھا ۔ مرنا تو ایک نہ ایک دن تھا ہی ،سو اس نے خدا کا نام لیا اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھا۔
وہ گاڑی کا گیٹ کھول کر باہر نکلا ،پھر اس نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہاں سے چیونگم کے دو پیکٹ نکالے ، انہیں پھاڑا منہ میں ڈالا اور خاموشی سے کوٹھی کے پھاٹک میں دبے قدموں داخل ہوگیا ۔ لمحہ بہ لمحہ ماحول میں سنسنی بڑھتی جا رہی تھی۔ اگرعمران کی جگہ اس وقت کوئی عا م آدمی ہوتا تو وہ کوٹھی میں گھسنے کی جرات ہی نہ کرتا اور باہر سے ہی اُلٹے قدموں دوڑ لگا لیتا ۔
مگر وہ عمران تھا ڈرنا اس کی فطرت میں نہیں ۔ وہ اندھیرے میں دیدے پھاڑے نہایت احتیاط سے قدم بڑھا رہا تھا۔ لگتا تھا کہ آج قدرت بھی اس پر مہربان نہیں ،موسم نے ایک بھر پور انگڑائی لی اور اس کے ساتھ ہی آسمان کو گہرے سیاہ بادلوں نے اپنے مضبوط شکنجوں میں جکڑلیا۔چاند کی شکل کوسوں دور لگتا تھا کہ جیسے ابھی خوب بارش برسنے والی ہے۔ ایکا ایکی میں بجلی شدت سے چمکی اور ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے عمران کی گالوں کو چھونے لگے ۔ سردی کی شدید لہر اسکے جسم کی ہڈیوں کو جھنجوڑنے لگی مگر ا اس نے موسم کی پر وا ہ کیئے بغیر آسمانی بجلی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی مشاق آنکھوں سے ارد گردد کا ماحول ایک ہی لمحے میں دیکھ ڈالا اسی اثناء میں بادل زور سے گرجے اور ٹھنڈی ہوائیں مزید شدت اختیار کرگئیں۔ لان میں کوئی موجود نہیں تھا ،وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا برآمدے کی جانب بڑھنے لگا۔
تیز ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ساتھ اب بارش کے موٹے موٹے قطرے بھی پڑنا شروع ہوگئے تھے۔ اس نے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھیں اور پھروہ ایک کمرے میں داخل ہوگیا۔ جہاں باہر سے زیادہ گھپ اندھیرا تھا، ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دے رہاتھا ۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا آگے بڑھنے لگا کہ اچانک کوئی چیز اس کے پیروں سے ٹکرائی اور وہ دھڑام سے منہ کے بل زمین پہ آرہا، دفعتہ ً کوئی چیز غیر ارادی طور پر اس کے ایک ہاتھ میں آگئی اور دوسرے ہاتھ میں اسے کچھ گیلا گیلا سا محسوس ہونے لگا۔ اس نے حیرت سے دونوں ہاتھوں کودیکھنے کی ناکام کوشش کی اور پھر وہ اُٹھ بیٹھا۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھتا کمرے کا سائیڈ دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور اسکے ساتھ ہی کوٹھی کی لائٹس بحال ہوگئیں ۔
اگلا منظر ناقابل یقین ، ناقابل بیان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیپٹن فیاض اپنی مکروہ رترین مسکراہٹ کیساتھ دروازے پر نمودار ہوا،جبکہ اسکے پیچھے سرعبدالرحمان اپنے تمام تر جاہ وجلال کے ساتھ شعلہ بھری آنکھوں سے عمران کو گھور رہے تھے۔ انکے ساتھ انٹیلی جنس کے دیگر تین آفیسرز بھی موجود تھے اور عمران سکتے کے عالم منہ کھولے ان سب کو دیکھ رہا تھا۔
ایک دم سرعبدالرحمان کے چنگیزی خون نے کھول کھایا اور انہوں نے اپنی دھاڑتی ہوئی آواز میں کہا۔
“گرفتار کر لو اسے۔۔۔۔۔۔"
کیپٹن فیاض اپنی مکروہ ترین مسکراہٹ کے ساتھ ہتھکڑیاں لئے عمران کی جانب بڑھنے لگا۔ایسے میں ایک آفیسر نے موبائل کیمرے سے عمران کی ایک تصویر بھی اُتارلی۔ جوں ہی کیمرے کا فلیش عمران پر پڑا اس کو جیسے ہوش آگیا۔ اس سے قبل وہ سانس لینا ہی بھول گیا تھا، عمران نے فوراً اپنے آپ پر نظر دوڑائی اور اردگرد کا جائزہ لیاتو نیچے حوب صورت قالین کو دیکھ کر وہ بالکل ہکا بکا رہ گیا۔اس کے سامنے سر داور کی انتہائی بھیانک لاش پڑی ہوئی تھی، جنہیں بے حد سفاکی سے قتل کردیا گیا تھا۔ ان کی لاش سے خون ابل ابل کر جم گیا تھا ،اُن پر ان گنت خنجر سے وار کئے گئے تھے اورخنجر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
خنجرعمران کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ،ہاتھوں اور کپڑوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ پھر اس کے ہاتھ سے خنجر چھوٹ گیا ، وہ کسی مشین نماانسان کی طرح لا شعوری طور کھڑا ہو ا ۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔ اور وہ خاموش تھا اپنی سوچوں میں گم شاید حالات کا تجزیہ کررہا تھا کے اس سے کہاں غلطی ہوئی ؟ اس کے ساتھ یہ واردات کیسے ہوگئی ؟؟؟ مگر اب سوچنا فضول تھا ، جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔ حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے ، کبھی اچھے تو کبھی برے اور کھبی انسان کی سوچ سے بھی زیادہ بگڑ جاتے ہیں ،اسی تغیر کا نا م زندگی ہے ۔لحاظہ اس نے خو دکو بہتی موجوں کے حوالوں کردیا ، یہی آپشن بہترتھا، فرار کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ آگے بڑھا دئیے اور کیپٹن فیاض نے نہایت فخر اور چوڑے سینے کے ساتھ اس کی کلائیوں میں ہتھکڑیاں پہنا دیں۔ جیسے وہ اس وقت کوئی بہت بڑا عظیم کارنامہ سرانجام دے رہا ہو۔
وہ علی عمران جس نے اب تک لاتعداد مجرموں کو قانون کے حوالے کیا تھا اور کئی بار اس نے کیپٹن فیاض کی مدد کی تھی آج وہ خود قانون کے آہنی ہاتھوں میں تھے۔ بے شک قانون اندھا ہوتا اور اس کا عملی مظاہرہ آج اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61267 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More