علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - چوتھی قسط

 گم شدہ فوٹیج

پرائم چینل کی لائیو نشریات نے پورے پاکیشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ہر شخص پرائم چینل کو ایس ایم ایس اور ان کے دفتر میں ٹیلی فون کر کے اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کررہا تھا۔ سب لوگ سر داور کی موت پر سخت رنجیدہ تھے ،جبکہ بہت سےلوگ عمران پر خاصے برہم تھے، انہوں نے عمران کے لئے طرح طر ح کی سزائیں بھی تجویز کردی تھیں۔ کسی نے تجویز دی تھی کہ عمران کو ایک جنگلی ریچھ کے ساتھ پنجرے میں بند کردینا چاہیے ۔ تاکہ عمران کے جسم کے چیتھڑے اُڑ جائیں اورآئندہ کسی کی جرات نہ ہو کے کوئی ایسا سنگین فیل انجام دے سکے ۔ تو کسی نے کہا تھا کے عمران کے ہاتھ پیر باندھ کر اس کو پاکیشیا کے کیپیٹل کے نواحی پہاڑوں میں موجود چوہوں والی غار میں چھوڑ آنا چاہیے تاکہ پہاڑی چوہے اس کے جسم پر قہر بن کرٹوٹیں اور اس کے جسم کونوچ کھائیں۔ کسی نے عمران کے لئے کیپیٹل سٹی میں موجود سب سے بڑے انٹر نیٹ والے ٹاور سے زنجیروں کے ساتھ جکڑ کر ایک ہزار کوڑوں کی سزا تجویز کی تھی۔ کسی نے مشورہ دیا تھا کے عمران کو ایسی سخت دی جائے کے عمران کی روح صدیوں تک تڑپتتی ،چیختی چلاتی پھرے اور اسے کبھی چین نصیب نہ ہو۔ جان پور قصبے سے ایک آدمی نے ایس ایم ایس کیا تھا کے "ہمارے قصبے سے تھوڑا دور ایک گھنا جنگل ہے ،جس میں ایک بہت ہی قدیم اندھا کنواں ہے اس میں کئی زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں ۔ اگر علی عمران کو اس میں پھینک دیا جائے تو ہم سب قصبے والوں کا دل باغ باغ ہوجائے گا۔"
ایک عورت نے انتہائی جذباتی انداز میں ایس ایم ایس لکھا تھا کے " میں نے جب سے یہ خبر سنی ہے میرے آنسو ہیں کے تھمنے کا نا م ہی نہیں لے رہے ، کیا کوئی ایسا جانور بھی ہوسکتا ہے جو انسان کو اس بے رحم طریقے سے مار دے ۔ میر ی صدر صاحب سے اپیل ہے کے وہ اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں اور علی عمران کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ اگر اس کیس میں مظلوموں کے ساتھ انصاف نہ ہوا تو یہ معاشرہ جنگل کا معاشرہ بن جائے گا اور یہاں علی عمران جیسے بھیڑیا صفت انسانوں کی کمی نہیں۔"
پاکیشیا کے ایک شہر سے کسی نے ایس ایم ایس کرتے ہوئے کہا تھا کے :
"علی عمران اکیسویں صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے ۔یہ وہ ناسور ہے کے جب تک اسے مکمل طور پر جڑ سے نہیں اُکھاڑ دیا جاتا تب تک ملک میں امن نہیں آسکتا اگر سر داور شہید جیسے عظیم انسان اتنی سکیورٹی کے بعد بھی محفوظ نہیں تو پھر ہم جیسے عام انسان کہا ں محفوظ ہوسکتے ہیں؟ میری صدر صاحب سے اور اس ملک کی سب سے بڑی اعلیٰ عدالت فیڈرل کورٹ آف جسٹس کے چیف جسٹس جنا ب ایس کے ملک صاحب سے اپیل ہے کے علی عمران نے جس طرح اپنے جنگلی ہونے کا مظاہرہ کیا ہے ،ہمیں بھی اس کے ساتھ بالکل ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے ۔ میر ی رائے میں علی عمران کے جسم کے اتنے ٹکرے کرنے چاہیں جتنے اس نے سرداور کے جسم پر خنجر سے وار کیئے ہیں اور اس کے بعد اسے پاگل کتوں کے آگے ڈال دینا چاہیے۔۔۔۔۔" غرض یہ کے تمام لوگ جذباتیت کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے ان کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ اپنا غصہ کس طر ح نکالیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
صدر صاحب کا بیان بھی آگیا تھا جس میں انہوں نے سر داو کے قتل کی پر زور الفاظ میں مذمت کی تھی اور کہا تھا کے علی عمران کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے پاکیشیائی پرچم سر نگوں رکھنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے سر داورکے لئے ڈھیر ساری دعائیں اور فیملی کو صبر کی تلقین کی تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کے سر داور کے جسد خاکی کو قومی پر چم میں لپیٹ کر فل پروٹوکول کے ساتھ انکی وصیت کے مطابق ان کے آبائی گاؤں میں دفنایا جائے گا۔ انہوں نے بیوہ اور بچوں کے لیے بہت بڑی رقم کا اعلان کیا تھا اور ساتھ میں سرکاری خزانے سے انکی فیملی کا پورا خرچ اٹھانے کے بھی احکامات جاری کئے تھے۔ انہوں نے اس معاملے کا مکمل نوٹس لیتے ہوئے کل بہت بڑا ہائی لیول اجلاس بلا لیا تھا۔ جس میں انہوں نے ایکسٹو کو بھی مدعو کیا تھا۔ توقع کی جارہی تھی کے کل بہت اہم فیصلے ہونگے جس میں علی عمران کے مستقبل کا فیصلہ بھی کردیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭
سرعبدالرحمان اور کیپٹن فیاض پریس کانفر نس کے لئے آگئے تھے۔ یہ پریس کانفرنس سینٹرل انٹیلی جنس بیورو کے میڈیا سیکشن کے دفتر سے منسلک ایک چھوٹے سے ہال نما کمرے میں ہورہی تھی۔تمام میڈیا چینلز کے مائیکس جن پر ان چینلز کے دیدہ زیب لوگوز لگے تھے ، ان کے سامنے رکھے ہوئے تھے اور کیمروں کی فلیش لائٹس کھٹ کھٹ کرکے ان کے چہروں پر پڑ رہی تھیں۔ یہ چھوٹا سا ہال نما کمرہ تھاجس میں ایک بڑی سی میز کے پیچھےسرعبدالرحمان اور کیپٹن فیاض بیٹھے ہوئے تھے۔ جبکہ ان کے دائیں جانب ایک بڑی سی ایل سی ڈی لگی ہوئی تھی جس پر "سینٹرل انٹیلی جنس بیورو "کے الفاظ جھومتے لہراتے ہوئے فلیش ہورہے تھے۔ان کے سامنے مائیکس ،کاغذات کا پلندہ اور ایک ریموٹ کنٹرل بھی رکھا ہوا تھا۔ جبکہ میز کے سامنے بہت سی کرسیوں پر صحافی حضرات اپنے پین اور نوٹ بکس کے ساتھ موجود تھے۔ ان کی بیک پر بہت سے کیمرے فکس تھے جو اس پریس کانفرنس کی لائیو منظر کشی کررہے تھے۔ اس کے علاوہ پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے کیمرہ مین بھی موجود تھے جن کے سینوں پر کیمرے لٹکے ہوئے تھے ۔ جن کو وہ کبھی کبھی اُٹھا کرکھٹ کھٹ کرتے ہوئے سرعبدالرحمان اور کیپٹن فیاض پر فلیش لائیٹس برسا رہے تھے۔ زمین پر تاروں کا جال بچھا ہوا تھا جو مائیکس سے نکل رہی تھیں اور ان کا رخ کیمروں کی جانب تھا۔ یہ پریس کانفرس شام پانچ بجے ہونی تھی مگر کچھ ضروری چیزوں کا اہتمام کرنے میں ایک گھنٹہ لیٹ ہوگئی تھی ۔ خیرسرعبدالرحمان سب سے پہلے بات کرتے ہوئے کہنے لگے۔
"میں آپ سب میڈیا والوں کا شکر گزار ہوں کے آپ نے ہمارے لیئے وقت نکالا آپ کو تمام تفصیل کیپٹن فیاض ہی بتائیں گے اور میں صر ف آپ لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کے میرا علی عمران نامی شخص سے کوئی تعلق نہیں۔میں نے اس بد بخت کو پہلے ہی اپنے گھر سے نکالا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں نے اسے اپنی جائیداد سے بھی عاق کردیا ہوا ہے۔ لہذا آپ سے گذارش ہے کے بار بار میرا نام اس کے نا م کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے آپ سب کی مہربانی ہوگی۔ ۔۔۔" اتنا کہتے ہی وہ غصے سے اٹھے اور پریس کانفرنس چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔ صحافیوں نے زور زور سے چیختے ہوئے سرعبدالرحمان کو آوازیں دیں۔" سر سر بات سنیں ۔۔۔ کیا آپ اس حقیقت سے جان چھوڑانہ چاہتے ہیں کے آپ کا بیٹا قاتل ہے؟؟ کیا آپ میڈیا کو سچ بتانے سے بھاگ رہے ہیں ؟ ۔۔۔۔ "مگر وہ تب تک تیز تیز چلتے ہوئے وہاں سے جا چکے تھے۔ اتنے میں کیپٹن فیاض نے کھانستے ہوئے میڈیا والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
"جی میں آپ سب دوستوں سے بے حد معذرت خواہ ہوں کے یہاں پر تھوڑی سی بدمزگی ہوگئی، پلیز آپ اس بات کا برا نہ منائیں۔ میرے پاس آپ لوگوں کو دینے کے کے لئے بہت ہی سنسنی خیز خبریں ہیں۔ اس کے بعد میں آپ لوگوں کے ہر سوال کا جواب بھی دوں گاآپ سب دوستوں کو ناراض کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جی۔ پلیز آپ درگذر کریں، میں آپ کابہت ممنون و شکرگزار ہونگا ۔۔۔" کیپٹن فیاض نے بھرپور چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ سب صحافی خاموش ہوکر اس کی جانب متوجہ ہوگئے ۔ شاید انہیں بھی توقع تھی کے آج بہت سی بریکنگ نیوز ملنے والی ہیں۔
"میرے بھائیو ! سب سے پہلے تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کے ا حتساب کا عمل اب شروع ہوچکا اور اب بڑی بڑی مچھلیاں پکڑی جائیں گی۔ کوئی یہ نہ سمجھے کے وہ قانون سے بالاتر ہے ۔ انہوں نے پاکیشیا کو لاوارث سمجھ لیا ہے ،یہ جو چاہیں کرتے پھریں کوئی ان سے پوچھنے والانہیں ۔ مگر انٹیلی جنس بیورو اور کیپٹن فیاض کے ہوتے یہ ممکن نہیں ، اب ہر بڑا مگر مچھ پکڑا جائے گا ،پاکیشیا جیسے عظیم ملک کو انہوں نے اپنا گندا تالاب سمجھ لیا ہے ، اب یہ نہیں بچ پائیں گے۔ اب ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کے انٹیلی جنس بیورو کے ہاتھ بہت لمبے ہیں وہ مجروموں کو ان کے بلوں سے گرفتار کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔اسی سلسلے کی پہلی کڑی علی عمران کی گرفتاری ہے ، یہ شخص اپنے آپ کو بہت مکار ، عیار اور چال باز سمجھتاہے مگر یہ نہیں جانتا کے اس کے اوپر بھی ایک بہت بڑا ادارہ موجود ہے جس کا نا م " سینٹرل انٹیلی جنس بیورو "ہے۔ ہماری تو عمریں گزریں ہیں الجھے ہوئے کیسوں کی گھتیاں سلجھاتے ، مجرم خواہ اپنے آپ کو جتنا چالاک سمجھے مگر ہم قانون والے ہمیشہ ان سے دو ہاتھ آگے ہی ہوتے ہیں ۔ ہمیں کل رات ہمارے ایک خفیہ انفامر نے اچانک یہ اطلاع دی تھی کے سر داور صاحب کی جان کو آج رات شدید خطرہ ہے اور علی عمران ان کو شہید کرنے والا ہے۔ اس کے ارادے بہت خطرناک ہیں مگر آپ کے پاس بہت قلیل وقت ہے اگر دیر ہوئی تو آپ سر داور صاحب کو ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے۔لحاظہ اس اطلاع کی مکمل رپورٹ میں نے سر عبدالرحمان صاحب کو دی اور ان سے کہا میں نے اپنی ٹیم تیار کرلی ہے،وہ بھی ہمارے ساتھ ہولئے اور ہم نے وہاں پہنچتے ہی سر داور کی کوٹھی کو مکمل گھیر لیا۔مگر بد قسمتی سے علی عمران ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکا تھا اور جب تک ہم اس کے سر تک پہنچتے وہ شیطان اپنا کام پہلے ہی کرچکا تھا ۔ صد افسوس کے ہم سر داور صاحب کو نہ بچا سکے۔ ہم نے علی عمران کی موقعہ واردات پر جوں ہی فوٹو اتاری،تو وہ بزدل وہاں سے فرار ہونے ہی وا لا تھا کے میں نے انتہائی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئےاپنے آہنی ہاتھوں میں دپوچ کر اسے فرار ہونے سے روک لیا اور ساتھ ہی اس کے ہاتھ کو مروڑ کر وہ خنجر بھی زمین پر گرا دیا ۔ یوں ہم نے اس کی گرفتاری بمعہ آلہ قتل کی۔ اس خبیث انسان نے پوری کوٹھی کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم تباہ کردیا تھا اور کیمروں کی وہ سی سی ٹی وی فوٹیج جس میں اصل واردات کا ثبوت ہے تاحال غائب ہے۔ مگر میرا پورا یقین ہے کے وہ فوٹیج علی عمران کے کسی ساتھی کے پاس ہے۔وہ گم شدہ فوٹیج ہم بہت جلد میڈیا کے سامنے لے آئیں گے۔ اس کے علاوہ کوٹھی کے دو گارڈز غائب ہیں ، باقی تمام گارڈز کو زہریلی گیس چھوڑ کر مارا گیا جبکہ ایک گارڈ کی گردن بھی ٹوٹی ہوئی تھی ۔ جو دو گارڈز تا حال غائب ہیں ان کی تلاش ابھی جاری ہے۔ سر داور صاحب کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہوچکا ہے انکی موت کی وجہ ہمارے فورنسک نے بھی وہی بتائی ہے جو آپ سب دوستوں کو پہلے سے معلوم ہے۔ ان کی ڈیڈ باڈی ہم نے حکومت کو بھجوادی ہے جسے کل پورے اعزاز کے ساتھ ان کے گاؤں میں دفنا دیا جائے گا۔۔۔۔۔" فیاض جو مسلسل بولتے ہوئے تھک گیا تھا چند ساعتوں کے لئے رکا۔ گہرے سانس لئے اور پھر گویاہوا:
"آئیں میں آپ کو موقعہ واردات کی وہ فوٹو دکھاؤں جس میں علی عمران خنجر کے ساتھ موجود ہے ۔۔۔۔۔" یہ کہتے ہی اس نے ریموٹ کنڑول سے ایک بٹن پریس کیا تو ایل سی ڈی پر علی عمران کی وہی فوٹو ڈسپلے ہونے لگی جو سینٹرل انٹیلی جنس بیورو نے کل رات کو جرم کے وقت لی تھی۔ اس کے بعد اس نے ایک اور بٹن پریس کیا تو دوبارہ "سینٹرل انٹیلی جنس بیورو " لکھا ہوا نظر آنے لگا۔ اس نے اپنی تقریر پھر شروع کردی۔
"علی عمران ایک کرپٹ آدمی ہے، اس کے کئی خفیہ اکاؤنٹس میں سے پانچ اکاؤنٹس کا ہم نے سراغ لگا لیاہے۔جس میں اربوں روپے رکھے ہوئے ہیں اور یہ سب پیسہ پاکیشیا کی غریب عوام کا ہے۔ اس نے یہ سب پیسے بہت سے لوگوں کو بلیک میل کرکے ہڑپ کئے ہیں۔ اس نے میرے فلیٹ پر بھی زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے اور ہم اب وہ فلیٹ بھی واپس لے لیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی میں اب آپ لوگوں کے سوالات لوں گا۔۔۔۔۔۔ آپ لوگ ایک ایک کرکے اپنے سوال کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔ جی بھا ئی آپ ۔۔۔؟"
فیاض نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے ایک صحافی کی طرف اشارہ کیا۔
"سر آپ نے کہا کے آپ کے ادارے "سینٹرل انٹیلی جنس بیورو" کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور آپ لوگ ہمیشہ مجرم سے دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں تو پھر سر داور کی شہادت کیسے ہوئی؟ کیا یہ آپ سمیت دیگر سکیورٹی فورسزکے منہ پر طماچہ نہیں ہے؟ اگر اطلاع مل چکی تھی تو آپ کوعلی عمران کو اس واردات سے پہلے روک لینا چاہیے تھا، اس کو یہ واردات آخر کرنے ہی کیوں دی گئی؟" اس سوال کے پوچھتے ہی سخت سردی میں بھی کیپٹن فیاض کے پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے جلدی جلدی جیب سے رومال نکالا اور پسینا پونچھتے ہوئے کہا:
"دیکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔مم میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کے ہم بالکل پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔ مم مگر تھوڑی دیر ہوگئی۔۔۔۔۔ " کیپٹن فیاض بری طرح سے بوکھلا گیا تھا اس کو صحافی سے اس قسم کے سوال کی امید نہیں تھی وہ سمجھا تھا کے شاید میڈیا اس کی دل کھول کر تعریف کرے گا ،اس کی بلے بلے ہوجائے گی اور وہ راتوں رات مشہور ہوجائے گا۔۔۔۔
"سر اگر آپ اتنے ہی قابل آفیسر ہیں تو کیا آپ ایک فلیٹ بھی علی عمران سے نہیں خالی کرواسکے ؟ ہمیں تو ڈر ہے کے کہیں عمران آپ کے ہاتھوں سے ہی فرار ہی نہ ہوجائے۔۔۔۔۔ سر وہ قومی مجرم ہے ۔۔۔۔۔۔"ایک صحافی نے اسے ایک او ر ترش سوال کیا۔
"سر اگر سینٹرل انٹیلی جنس بیورو کی کارکردگی اتنی ہی شاندار ہے کے وہ پولیس کی طر ح جرم ہونے کے بعد موقعہ واردات پر پہنچتی ہے تو پھر آپ کو اور سر عبدالرحمان صاحب کو فوراً ری زائین کردینا چاہیے آپکی نااہلی کی وجہ سے سرداور کی جان گئی۔ کیا آپ اپنے کئے پر شرمندہ ہیں ؟ سر کیا آپ اپنی نااہلی پر قوم سے معافی مانگے گے؟ "
"سر کیا آپ بتانا پسند کریں گے کے اگر علی عمران اتنا کرپٹ انسان تھا تو آپ کا ادارہ اب تک سو کیوں رہا تھا؟ ۔ اس سے پہلے آپ نے اسے کیوں نہیں پکڑا؟"
"سر کیا آپ کو اتنی لوٹ مار کے بعد اب ہوش آیا ہے؟ کیا آپ ان بڑے مگرمچھوں کی فہرست میڈیا کو دینا پسند کریں گے ؟"
"سر کیا آپ یہاں پر اپنی بہادری کے قصے سنانے آئے تھے ؟ ۔۔۔۔۔"
ایک صحافی کی طرف سے دھولائی ختم ہوئی تو دوسر ا شروع کردیتا۔ کیپٹن فیاض جو شاید قومی ہیرو بننے آیا تھا آج اس کی میڈیا والوں نے وہ درگت بنا کے رکھ دی تھی کے اب اسکا وہاں دو پل بیٹھنا محال ہوگیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭
 
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61271 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More